• news

  منگل‘  2  شعبان المعظم 1445ھ ‘  13   فروری   2024ء

میں نہ مانوں اور کشیدگی و ہنگامہ آرائی والا پرانا کھیل پھر شروع۔
ہم سب کو سیاست سیاست کھیلنے کا شوق تو بہت ہے مگر ہم اس کھیل کے اچھے کھلاڑی بھی نہیں بن سکے۔ ایشیائی اقوام میں ویسے ہی شوریدگی کا عنصر زیادہ ہے اوپر سے ماحول، حالات اور جذبات میں جو جوالا مکھی ہر وقت بھڑکتا رہتا ہے اس نے خوب قیامت مچا رکھی ہوتی ہے۔ یہی حال افریقی اقوام کا ہے۔ اس کے برعکس یورپ میں نرم ٹھنڈا ٹھار موسم، ماحول اور حالات کے علاوہ جذبات بھی نرم رہتے ہیں اس لیے وہاں جمہوریت کا پودا پھلتا اور پھولتا ہے۔ ہمارے ہاں مرجھایا رہتا ہے۔ نفرتوں کا غبار باد سموم بن کر اسے پنپنے نہیں دیتا۔ اب گزشتہ دنوں ہونے والے الیکشن کے بعد دیکھ لیں وہی جماعتیں جو الیکشن الیکشن کا شور مچاتے نہیں تھکتی تھیں اب الیکشن کے نتائج آنے کے بعد دھاندلی اور نتائج تسلیم نہ کرنے کا شور مچا کر انہی جماعتوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا ہے اور احتجاج کیا جا رہا ہے۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ اس کا نتیجہ کیا نکل سکتا ہے مگر پھر بھی باز نہیں آ رہے۔ اس بار چونکہ ہارنے والوں میں قوم پرست انتہا پسند اور مذہبی جماعتوں کے لوگ بھی شامل ہیں اس لیے پروگرام تو دو آتشہ ہو گیا ہے۔ جس کا جی چاہتا درجن بھر لوگ جمع کر کے سڑکیں بلاک کر دیتا ہے۔ ہزاروں لوگوں کو پریشانی اٹھانا پڑتی ہے۔ انتظامیہ مداخلت کرے تو ’’ہم نہیں مانتے ظلم کے ضابطے‘‘ والے نعرے اور بینر لگا کر دنیا کو یہ پیغام دیتے ہیں کہ اظہار رائے کی آزادی دبائی جا رہی ہے۔ ہم پر ظلم ہو رہا ہے۔ وزیرستان ہو یا بلوچستان دونوں جگہ یہ چورن بیچا جا رہا ہے۔ کوئی پوچھے کہ بھائی اگر آپ جیت گئے ہوتے تو پھر کیا دوسروں کو اس طرح احتجاج کا حق دیتے۔ ان علاقوں میں تو  اب غیر مقامی افراد کو مزدوری کا حق نہیں دیا جاتا احتجاج کا حق کسے ملتا۔
٭٭٭٭٭
ہمارے ہارنے کی اصل وجہ مہنگائی تھی، ووٹ توقع سے کم ملے۔ رانا ثنا۔
چلیں کسی سیاسی رہنما کو تو سچ بولنے کی توفیق ملی۔ سچ یہی ہے کہ مہنگائی نے مسلم لیگ (نون) کی راہ میں دیوار کھڑی کر کے یہ پیغام دیدیا ہے کہ اب جو بھی حکومت آئے گی اگر اس نے مہنگائی پر قابو نہیں پایا۔ عوام کو اس خون چوسنے والی بلا کے سپرد ہی کیئیرکھا تو اس کا انجام بھی بخیر نہیں ہو گا۔ 
عوام کی اکثریت مہنگائی کو سابقہ پی ڈی ایم حکومت کی سوغات تصور کرتی ہے۔ جو ڈیڑھ سال میں اس پر قابو پانے میں مکمل ناکام نظر آئی ہے۔ اب اس پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت میں سب سے بڑا حصہ چونکہ مسلم لیگ (نون) کا تھا۔ وزیر اعظم شہباز شریف تھے اس لیے اس کی ذمہ داری سے باقی جماعتیں تو بچ گئیں، ملبہ سارا مسلم لیگ (نون) پر گرا جس کی وجہ سے اس کو مطلوبہ کامیابی نہ مل سکی اور ان کا سادہ اکثریت حاصل کرنے کا خواب واقعی خواب ہی رہا اور جب آنکھ کھلی تو شاہراہے اقتدار پر ہر طرف رکاوٹیں ہی رکاوٹیں تھیں۔ چارسو ملبہ بکھرا ہوا تھا۔
یوں ثابت ہوتا ہے کہ عوام کا سب سے بڑا مسئلہ مہنگائی ہے۔ جو اس کی راہ میں آئے گا پاش پاش ہو جائے گا۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اس عفریت کو قابو میں لانے کی ہرممکن کوشش کی جائے ورنہ بہتر ہے حکومت سازی سے توبہ کی جائے۔ کیونکہ جو بھی حکومت آئی اگر وہ ایک سال میں کوئی چمتکار دکھا کر مہنگائی پر قابو پانے میں ناکام رہی تو پھر اس کے اقتدار کا سورج جلد غروب ہو گا۔ اس لیے جو جماعت بھی حکومت میں آنا چاہتی ہے وہ واپسی کے سفر کی تیاری بھی ذہن میں رکھے۔ صرف حکومت سنبھالنا کمال نہیں ہو گا۔ عوام کا سامنا کرنا بہت بڑا کمال ہو گا۔ کاش ہمارے باقی رہنما بھی رانا ثنا اللہ کی طرح حقیقت کا اعتراف و احساس کر کے کام کریں تو زیادہ بہتر نتائج آ سکتے ہیں۔ 
٭٭٭٭٭
قومی اسمبلی میں 11 خواتین کامیاب ،  نون لیگ اور آزاد کی 4 چار خواتین شامل۔
جنرل نشستوں پر کامیاب ہونے والی ان خواتین میں 2 کا پیپلز پارٹی سے  اور ایک کا تعلق ایم کیو ایم سے بھی ہے۔ یہ سب مبارکباد کی مستحق ہیں۔ مگر ایک ایسی خاتون کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو چترال سے صوبائی اسمبلی کی آزاد امیدوار کے طور پر الیکشن لڑیں اور کامیاب بھی ہوئیں۔ وہ تو ایک باہمت خاتون ثابت ہوئی ہیں۔ بڑے بڑے شہروں میں یا بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے بل بوتے پر الیکشن لڑنا آسان ہے۔ کیونکہ خودبخود بہت سے ووٹر مل جاتے ہیں سیاسی حمایت حاصل ہوتی ہے۔ ایک قدامت پرست ماحول میں جہاں قدم قدم پر رکاوٹوں کے باوجود بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدواروں کے مقابلے میں تن تنہا نکلنا اور لوگوں کو متاثر کرنا بڑے کمال کی بات ہے ثریا بی بی نے صوبائی اسمبلی کی جنرل نشست پر جے یو آئی کے امیدوار کو 18 ہزار 914 ووٹ لے کر شکست دی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی‘‘ بڑے بڑے سیاسی گھرانوں کی امیرزادیاں تو دولت کے بل بوتے پر اپنی سیاسی بیک گرا?نڈ اور حمایت کے سہارے اگر فتح سمیٹتی ہیں تو یہ کوئی بڑی بات نہیں ہاں اگر عام گھرانے کی عام سی خاتون یہ کارنامہ سرانجام دیتی ہے تو اس سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ آج بھی سیاسی طوفان میں بہنے کی بجائے امن کے جزیرے پر قیام کو پسند کرتے ہیں۔ خدا کرے ملک بھر میں یہ لہر چل پڑے اور عام لوگ بھی عام آدمی بھی الیکشن لڑ سکیں اور جیت کر اس سیاسی انتشار سے ملک کو نکال کر دکھائیں یہی جمہوریت اور جمہوری عمل کی کامیابی ہے۔ اس میں ہی ملک و قوم کا فائدہ ہے۔ 
٭٭٭٭٭
کوئی بھی خواجہ سرا الیکشن میں کامیاب نہ ہو سکا۔
اس کے باوجود خواجہ سرا رہنمائوں نے اپنی جدوجہد جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بددل نہیں ہوں گی نہ ہی دبک کر بیٹھ جائیں گی بلکہ ان کی کوشش جاری رہے گی۔ خواجہ سرا برادری نے قومی اسمبلی کی 2 اور صوبائی اسمبلی کی 11 نشستوں پر اپنے امیدوار کھڑے کئے تھے مگر ان میں سے کوئی بھی کامیاب نہ ہو سکا۔ ووٹ بھی انہیں بہت کم ملے۔ ہمارے ہاں ابھی تک اتنی روشن خیالی نہیں آئی کہ ہم کوئی علیحدہ ہی کوئی نئی سائنس یا راہ ایجاد کریں۔ ویسے خود تالیاں بجاتے ہوئے خواجہ سرائوں نے الیکشن سے پہلے بھی الیکشن کمشن والوں سے کہا تھا کہ ان کے لیے علیحدہ پولنگ سٹیشن بنائے جائیں تو اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ وہ خود کو عام لوگوں سے ہٹ کر علیحدہ مخلوق تسلیم کرتے ہیں اس لیے ان کو ووٹ بھی انہی کی برادری کے ملے جو ظاہر ہے 24 کروڑ پاکستانیوں میں بہت کم ہے۔ ویسے بھی ہمارے مردانہ و زنانہ امیدواروں کے اعلانات پر، وعدوں پر کوئی یقین نہیں کرتا تو ان ناز و ادا سے تالیاں بجا کر اور نخرے دکھا کر ووٹ طلب کرنے والوں کی باتوں پر کس نے یقین کرنا تھا۔ ان کے پاس ویسے بھی کوئی نیا ایجنڈا تو تھا ہی نہیں دکھانے کو توپھر وہ کیا کہہ کر ووٹ طلب کرتے کہ لوگ ان کو ووٹ ڈالتے۔ بہرحال یہ ایک اچھی بات ہے کہ ہمارے ہاں سب کو اپنا مقدر آزمانے کی اجازت ہے، آزادی ہے۔ جو لوگ پاکستان میں قدامت پرستی کا ڈھول بجاتے ہیں ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ یہاں اتنی اندھیر نگری نہیں ہے جتنا وہ بیان کرتے ہیں۔ خود یہ ڈھول بجانے والے بھی الیکشن میں کھڑے ہوئے اور کامیاب بھی ہوئے ہوں گے کم از کم اب تو وہ یہ منفی پراپیگنڈا بند کر دیں اور حقائق کا سامنا کریں کہ ہمارا معاشرہ بھی روشن خیال ہے۔
٭٭٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن