• news

مخلوط حکومت کے خدوخال اور ایوانِ صدر میں ’’کُھدائی‘‘ 

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ صاحب کے اعلان کردہ پتھر پر لکیر انتخابات تو بالآخر آٹھ فروری کو ہو کر رہے اور پولنگ سے ایک دن قبل ہی نہیں، پولنگ والے دن بھی پاکستان کے جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے کے متمنی بدبخت عناصر کی پھیلائی دہشت گردی ان کے مذموم عزائم کی تکمیل میں معاون نہ بن سکی تو حضور! خاطر جمع رکھئیے۔ ملک ، سسٹم اور ریاستی اداروں کے خلاف کُھل کھیلنے والی آپ کی ساری حکمتِ عملیاں بھی کسمساتی ، سٹپٹاتی، ہذیانی کیفیت سے گزرتی اب آخری ہچکی لینے ہی والی ہیں۔ اب آخری حربے کے طور پر صدر ڈاکٹر عارف علوی کوئی تخریبی، انتشاری گیم ڈالنے کی سازش کے تانے بانے بُنتے نظر آتے ہیں جنہیں مزید ’’کھدائی‘‘ میں شائد اب ’’لذتِ آزار‘‘ حاصل ہو پائے گی۔ اس کے لئے ان کے ذہن میں کیا کھچڑی پک رہی، مجھے اس کا اندازہ گزشتہ روز پی ٹی آئی کے ایک کرم فرما کی کھسر پھسر سے ہوا جو میرے حلقۂ احباب کی ایک نشست میں بھویں نچاتے، آنکھیں گھماتے اور اپنے جسم کو ڈانس والے انداز میں حرکت میں لاتے ہوئے ایک دوست کے ساتھ کسی وارفتگی والی سرخوشی کا باڈی لینگوئج کے ذریعے اظہار کرتے نظر آ رہے تھے۔ میں نے کن اکھیوں سے ان کے وارفتگی والے انداز کا جائزہ لیا تو ان صاحب نے راز دارانہ انداز میں کی جانے والی اپنی باتیں سمیٹنے کی کوشش کی مگر ان کے آخری ادا شدہ فقرے کی بھنک مجھے پڑ گئی۔ ’’صدر صاحب پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دے رہے ہیں۔‘‘ ارے واہ۔ ’’کھدائی‘‘ کا سلسلہ اب بند کر دینے کے نیک مشورے دینے والے ایوان صدر کے عارضی مکین خود کس جوش اور کس شوق سے کھدائی کا ارادہ رکھتے ہیں، ان صاحب نے پورے پانچ سال ایوانِ صدر کو ایک مخصوص سیاسی پارٹی کا مرکز و مسکن بنائے رکھا۔ اس پارٹی کی قیادت کے ہر اشارے پر لبیک کہتے ان کے تخریب و انتشار کے ایجنڈے کو آگے بڑھاتے رہے اور ٹائیگر بن کر صدر نشینی کو بٹہ لگاتے رہے۔ان کے اس کھلے جانبدارانہ کردار کا تو جسٹس عمر عطاء بندیال والی سپریم کورٹ بھی نوٹس لئے بنا نہ رہ سکی جس نے پی ٹی آئی قائد کے اشارۂ ابرو پر ان کی جانب سے توڑی گئی اسمبلی بحال کر کے ان سمیت وزیر اعظم اور ڈپٹی سپیکر کے احکام کالعدم قرار دے دئیے اور کر ان کے خلاف آئین سے انحراف والے کیس کی بنیاد رکھ دی۔ بلاشبہ یہ اقدام ان تمام متعلقین کے خلاف آئین کی دفعہ چھ کو بروئے کار لانے کا متقاضی تھا مگر مزید سرکشی کے لئے ان کی رسّی دراز ہو گئی۔ 
اب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی عدالت کی جانب سے بھی تحلیل شدہ اسمبلی کے انتخابات کے لئے صدر کی جانب سے آئینی تقاضہ پورا نہ کرنے کا نوٹس لیتے ہوئے جسٹس بندیال کی عدالت کے فیصلہ کا بھی حوالہ دیا گیا تو سمجھئے کہ دفعہ 6 والی کارروائی کی تلوار بدستور ان کے سر پر لٹک رہی ہے۔ مگر صدر صاحب کے شرارتی ذہن کو تو مزید شرارت سوجھ رہی ہے۔ 
آئین کا تقاضہ تو یہی ہے کہ قومی اسمبلی کے نومنتخب ہائوس کے اندر جو پارلیمانی لیڈر اپنے ساتھ عددی اکثریت کی موجودگی دکھا دے گا، اسے صدر مملکت حکومت سازی کی دعوت دیں گے اور اگر ہائوس کے اندر کوئی بھی پارلیمانی لیڈر اپنی عدد اکثریت شو نہ کر سکا تو پھر اسمبلی کے دوبارہ انتخابات کی نوبت آئے گی۔ اس وقت نومنتخب اسمبلی کے افتتاحی اجلاس سے پہلے پہلے جو صورت حال واضح طور پر اگلے اقتدار کا نقشہ کھینچ رہی ہے اس میں عددی اکثریت کی حامل کوئی ایک پارٹی بھی موجود نہیں، چنانچہ انتخابات کے جیسے جیسے نتائج سامنے آتے گئے اسی وقت ممکنہ مخلوط حکومت کے تانے بانے بُنے جاتے نظر آنے لگے۔ ہماری ظالم سیاست میں یہی فلسفہ راسخ ہو چکا ہے کہ اس میں کوئی حرفِ آخر نہیں، چنانچہ اقتدار یا کسی دوسرے سیاسی فائدے کے لئے پینترا بدلنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگائی جاتی۔ گزری کل کے حریف آج کے حلیف کے لبادے میں رونما ہو جاتے ہیں اور آج کے حلیف ممکنہ طور پر آنے والی کل کے لئے ایک دوسرے کے مقابلے پر آنے کے لئے ڈنڈ بیٹھکیں نکالتے نظر آتے ہیں۔ مجھے اس منافقانہ مفاہمانہ سیاست سے کوئی دلچسپی ہے نہ ایسے سیاست کاروں میں میرا کوئی ممدوح ہے اور اصولی طور پر میں اس سیاست کو ملک اور عوام کے مفادات کے سراسر منافی سمجھتا ہوں اس لئے آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کے بعد انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے سے برسرِپیکار اور ایک دوسرے کو عامیانہ انداز میں مطعون کرنے والے مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے قائدین کو اب مخلوط حکومت کی تشکیل کے لئے پھر ایک دوسرے کے ساتھ راز و نیاز کرتے اور باہمی افہام و تفہیم سے ممکنہ مشترکہ حکومت کے خدوخال اجاگر کرتے ہوئے دیکھتا ہوں تو مجھے تعفن چھوڑنے والی ایسی سیاست کاری سے گِھن آنے لگتی ہے۔ 
یہی لوگ تو پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر اتحادی حکومت تشکیل دے کر ’’من ترا حاجی بگوئم، تو مِرا ملّا بگو‘‘ کی تصویر بنے، ایک دوسرے کے لئے رطب اللسان نظر آتے تھے جنہوں نے عاجلانہ حکمرانی میں عملاً عوام کے کڑاکے نکال دئیے اور ان کی نفرت و حقارت کی زد میں آئے مگر جیسے ہی اقتدار کے سنگھاسن سے باہر نکل کر انہوں نے نئی اسمبلی کے لئے انتخابی میدان میں اترنے کی تیاری کا آغاز کیا تو باہمی رطب اللسان یہی سیاسی قیادتیں ایک دوسرے کے گریبان تک کی خبر لیتی نظر آئیں۔ ارے بھئی، اصولوں کی سیاست کا کیا ہوا؟ اور مشترکہ حکومت کی خرابیوں کا سارا ملبہ ایک پارٹی کے سر پر ہی کیوں گرایا گیا۔ اقتدار کے مزے مشترکہ اور عوام کی طرف سے نفرت و حقارت کا رخ صرف ایک پارٹی کی جانب موڑنے کی کوشش۔ یہ مفاداتی سیاست کے ہی تو شاہکار ہیں۔ اور بلاول نے تو اپنے جُثے سے بھی باہر نکل کر اپنی پی ڈی ایم حکومت والی حلیف جماعت کی قیادت کو رگڑا لگانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ 
اب آٹھ فروری کے نتائج نے ان دونوں جماعتوں کو ’’مدھول‘‘ دیا ہے اور وہ اپنے طور پر سادہ اکثریت کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں پھٹکنے کے قابل نہیں رہیں تو مفاداتی سیاست انہیں پھر باہم شیر و شکر ہونے کی راہ پر لے آئی ہے۔ میاں نواز شریف صاحب کے دل میں ’’قومی مفاہمت‘‘ کا بے پایاں جذبہ عود کر آیا ہے اور آصف زرداری صاحب اور ان کے فرزندِ ارجمند ’’آملے ہیں سینہ چاکانِ چمن سے سینہ چاک‘‘ کے دلفریب نعرے لگاتے چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے متمنی اپنے انتخابی حریف میاں نواز شریف سے گلے ملنے میں کوئی عار محسوس نہیں کر رہے۔ ایم کیو ایم کی تو اس سیاست میں ہمہ وقت پانچوں انگلیاں گھی میں ہوتی ہیں۔ اس لئے پی ڈی ایم پارٹ ٹو کی مشترکہ مخلوط حکومت کی راہ میں اب ’’ستّے خیراں‘‘ والے قالین بچھتے ہی نظر آ رہے ہیں۔ 
یہ الگ بحث ہے کہ آٹھ فروری کے انتخابات کو ’’ای وی ایم‘‘ کے ذریعے مینج کرنے میں الیکشن کمشن کا کیا کردار رہا ہے اور پولنگ کے تیسرے دن تک بھی حتمی نتائج مرتب نہ ہو پانے میں کس کی اور کیا حکمتِ عملی کارفرما تھی۔ اس پر تاریخ اپنے اوراق الٹتی پلٹتی رہے گی مگر اب تک کے زمینی حقائق تو یہی ہیں کہ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، جمعیت علماء اسلام (ف)، مسلم لیگ (ق) اور استحکام پاکستان پارٹی کی حاصل کردہ مجموعی نشستیں اسمبلی میں سادہ اکثریت کی منزل سے ہمکنار ہو چکی ہیں اس لئے ’’قومی اتفاقِ رائے‘‘ والی مخلوط حکومت کی راہ میں اب کوئی رکاوٹ حائل ہوتی نظر نہیں آتی۔ پھر صدر عارف علوی کی جانب سے پی ٹی آئی کو حکومت بنانے کی دعوت دینے کی سوچ چہ معنی دارد۔ 
اس پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے آزاد ارکان کسی پارٹی پلیٹ فارم کے بغیر ازخود کیسے حکومت سازی کے عمل کا اجراء کر سکتے ہیں جبکہ ان کی تعداد بھی اتنی نہیں کہ وہ خود پر سنگل مجارتی پارٹی کا لیبل لگا سکیں۔ ان کے پاس اپنی پارٹی قیادت کے ٹھہرائے چوروں، ڈاکوئوں کے ساتھ مل کر اقتدار کی مسند کی جانب بڑھنے کے سوا تو کوئی راستہ موجود ہی نہیں اور اقتداری سیاست کے بھائو تائو والے مراحل میں اس پارٹی کی قیادت کو لگ پتہ جائے گا کہ اس کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے والے آزاد ارکان کے ہاتھوں اس کیا درگت بنتی ہے۔ آپ آگے آگے دیکھتے جائیے اور شرماتے جائیے۔ اور صدر علوی کا اب باسی کڑھی میں ابال کوئی جوش دکھائے گا تو آئین کی دفعہ 6 والی کارروائی کا دروازہ کسی وقت بھی کھل سکتا ہے۔ آپ فی الحال اقتداری شیرینیوںکی بندربانٹ کا نظارہ کیجئے اور ’’یہ تیرا، وہ میرا‘‘ کی فکر میں غلطاں سیاست کاروں کی آنیاں جانیاں دیکھئے۔ راندۂ درگاہ عوام نے تو ابھی تک ’’لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے‘‘ والے خواب کو اوڑھ کر اپنی بے بسی کا تماشا ہی دیکھنا ہے۔ جب ’’بنا ہے عیش تجمل حسین خاں کے لئے‘‘ کا آفاقی اصول ہی کارفرما رہنا ہے تو پھر کیڑے مکوڑے عوام کی اس سسٹم میں بھلا اوقات ہی کیا ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن