• news

انتخابی نتائج اور حکومت سازی

ہماری انتخابی تاریخ کوئی زیادہ اچھی نہیں ہم نے ہر الیکشن کے نتائج کو مشکوک بنایا اور نتائج تسلیم بھی کیے۔ 1977ء کے انتخابات کے نتائج کو تسلیم نہ کرتے ہوئے احتجاجی تحریک چلائی گئی جو بالاآخر مارشل لاء پر منتج ہوئی۔ اس وقت پاپولر سیاسی جماعت نے منتخب ہو کر حکومت بنائی تھی اور تمام سیاسی جماعتوں کے قومی اتحاد نے نتائج تسلیم نہ کرتے ہوئے احتجاجی تحریک چلائی تھی۔
 اس بار انتخابات میں سب سے بڑی سیاسی قوت انتخابات میں دھاندلی کا رونا رو رہی ہے اور اقلیتی مینڈیٹ والی سیاسی جماعتیں مل کر حکومت بنا رہی ہیں۔ امید تو یہی ہے کہ تحریک انصاف موجودہ صورتحال میں اپنا حق حاصل کرنے کے لیے عدالتی جنگ لڑے گی۔ انھوں نے ذہنی طور پر انتخابی نتائج کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا ہے البتہ معرض وجود میں آنے والی متوقع اتحادی حکومت کے خلاف حالات نارمل ہونے پر تحریک انصاف احتجاجی تحریک چلا سکتی ہے کیونکہ انکے پاس بعض حلقوں میں انتخابی نتائج میں گڑ بڑ کے ٹھوس شواہد موجود ہیں۔ کئی لوگ تو اس وجہ سے خوش ہیں کہ انھیں بغیر بلے کے ووٹ مل گئے اور وہ کامیاب ہو گئے اور کئی اس وجہ سے خوش ہیں کہ انھیں ووٹ ملے بغیر کامیابی مل گئی ہے۔ 
ہم نے کہا تھا یہ الیکشن بڑے عجیب وغریب ہوں گے ہارنے والوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ ہار کیسے گئے ہیں اور جیتنے والوں کو سمجھ نہیں آئے گی کہ وہ جیت کیسے گئے۔ ویسے معلوم ہوا ہے بعض باضمیر لوگوں نے جیتنے سے انکار کرتے ہوئے اصل حق داروں کو حق دینے کی بات کر کے ضمیر کا قیدی بننے سے انکار کر دیا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پاکستان میں پہلی دفعہ ایک  سیاسی جماعت نے تو ریکارڈ قائم کردیا ہے جس کے تمام امیدواروں نے سوفیصد کامیابی حاصل کر لی ہے۔ کئی ایسے امیدوار بھی کامیاب ہو گئے جن کے گھر والے بھی کہہ رہے تھے، پتر توں تے کامیاب نہیں ہو سکدا،ایسے حالات میں تحریک انصاف نے جن مشکوک حلقوں کے انتخابات کو چیلنج کیا ہے اگر عدالتوں سے انھیں ریلیف نہ ملا تو وہ سڑکوں پر احتجاج کا راستہ اختیار کریں گے۔ 
نہ جانے کیوں انتخابات سے قبل بھی یہ کہا جا رہا تھا کہ انتخابات کے بعد پی ڈی ایم کی سیاسی جماعتیں ہی دوبارہ حکومت بنائیں گی اور اتنی خوبصورتی کے ساتھ مجموعہ اکٹھا کیا گیا ہے کہ کسی سیاسی جماعت کو اکیلے حکومت بنانے کا مینڈیٹ نہیں ملا جبکہ تحریک انصاف مخالف سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کر کے دیکھا جائے تو باآسانی ان کی حکومت بن سکتی ہے۔ یہ چارٹ انتخابات کے حوالے سے عوام کو مطمئن کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ اب طے شدہ پروگرام کے مطابق  خیبر پختون خواہ کے سوا مرکز اور صوبوں میں پی ڈی ایم کی اتحادی حکومتیں قائم ہونے جا رہی ہیں۔ ان حکومتوں کو اسٹیبلشمنٹ، عدلیہ اور بیوروکریسی کی مکمل حمایت حاصل ہو گی۔
 ایک طرح سے یہ مضبوط حکومتیں ہوں گی لیکن یہ سیاسی خطرات سے دوچار رہیں گی کیونکہ عوام نے اکثریتی ووٹ دے کر تحریک انصاف کو حق حکمرانی دیا لیکن سیاسی مینجمنٹ کے ذریعے ان کو اقتدار سے دور رکھنا مقصود ہے اس لیے اتحادی حکومت کی سیاسی بنیادیں لرزتی رہیں گی سیاسی استحکام کے لیے ضروری ہے کہ تحریک انصاف کو ہر صورت مطمئن کیا جائے۔ ویسے اگر تحریک انصاف کے بانی چئیرمین تھوڑی سی لچک کا مظاہرہ کریں تو وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر پنجاب اور مرکز میں حکومتیں قائم کر سکتے ہیں مگر تحریک انصاف کے بانی چیرمین ایسا کریں گے نہیں۔ 2024ء کے انتخابات کے نتائج دیکھ کر وہ اگلے انتخابات میں لینڈ سلائیڈ وکٹری کا سوچ رہے ہیں پی ڈی ایم نے بانی چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف 2022ء میں عدم اعتماد کی تحریک لا کر بلنڈر کیا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ 16 ماہ میں اتنا کچھ کر جائیں گے کہ لوگ تحریک انصاف کو بھول جائیں گے مگر وہ سب الٹا ہو گیا اور وہ 16 ماہ پی ڈی ایم کو لے ڈوبے۔ اب بھی تحریک انصاف کو اقتدار سے دور کرکے اسے مزید مضبوط بنایاجا رہا ہے۔ اگر تحریک انصاف کے ساتھ یہی رویہ روا رکھا گیا تو اگلے انتخابات میں اسے دوتہائی اکثریت سے کوئی نہیں روک پائے گا۔
 ایک اور اہم بات اتحادی جماعتوں کے پاس حکومت سازی کے لیے نمبر گیم پورے ہیں۔ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد لوگوں کو توڑنے کی کوئی ضرورت نہیں لیکن اگر توڑے گئے تو اس کا بڑا خوفناک ردعمل ہو گا۔ لاہور سے وسیم قادر کی وفاداریاں خرید کر اس کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اس عمل کو عوام کسی صورت اچھا نہیں جانتے وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو موجودہ انتخابات میں عوام نے بری طرح مسترد کر دیا ہے۔ اگر کوئی اپنی سیاسی قبر کھودنا چاہتا ہے تو وہ ضرور دیہاڑی لگا لے سیاسی بقا والے کبھی یہ جوا نہیں کھیلیں گے۔ آخر میں پھر وہی کہ اگر ملک کو گرداب سے نکالنا ہے تو پھر تحریک انصاف کو اعتماد میں لینا پڑے گا۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن