• news

فضل الرحمن نے اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا

لاہور+ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ آئی این پی+خبر نگار+نمائندہ خصوصی) مولانا فضل الرحمان نے عام انتخابات میں مبینہ دھاندلی پر نتائج کو مسترد کر دیا اور اپوزیشن میں بیٹھنے کا اعلان کر دیا۔ مرکزی مجلس عاملہ کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ ہماری مجلس عاملہ نے انتخابی نتائج کو مسترد کر دیا ہے۔ انتخابی دھاندلی نے 2018ء کی انتخابی دھاندلی کا ریکارڈ بھی توڑ ڈالا ہے۔ الیکشن کمشن کے شفاف انتخابات کے بیان کو مسترد کرتے ہیں۔ پارلیمنٹ نے اپنی اہمیت کھو دی ہے۔ لگتا ہے اب فیصلے ایوان میں نہیں میدان میں ہوں گے۔ پارلیمنٹ میں شرکت احتجاج کے ساتھ ہو گی۔ جے یو آئی پارلیمانی کردار ادا کرے گی لیکن اسمبلیوں میں شرکت تحفظات کے ساتھ ہو گی۔ 25 فروری کو بلوچستان میں صوبائی جنرل کونسل سے میٹنگ کریں گے،27 فروری کو خیبر پختونخوا میں صوبائی جنرل کونسل سے میٹنگ کریں گے۔ 3 مارچ کراچی اور 5 مارچ کو لاہور میں بھی میٹنگ کریں گے۔ ہماری مرکزی مجلس عاملہ نے مجلس عمومی سے فیصلے کرنے کی سفارش کی ہے۔ مجلس عمومی فیصلہ کرے گی کہ پارلیمنٹ میں بیٹھیں یا نہ بیٹھیں۔ جے یو آئی کو دھاندلی کے ذریعے شکست سے دوچار کیا گیا ہے۔ ہمارا جرم یہ ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا کے لیے جے یو آئی قابل قبول نہیں۔ ہم پیپلز پارٹی یا (ن) لیگ کسی کے تابع دار نہیں، کسی پارٹی کے اتحادی نہیں، پارلیمنٹ میں تحفظات کے ساتھ جائیں گے۔ ہم پر جو گزری ہے، ہم علاقوں میں نہیں جا سکتے تھے، ہماری کوئی بات نہیں سنی گئی، ہم بھی نہیں سنیں گے۔ ہم یک دم میدان میں نہیں آئے، ہم نے تیاری کی ہے، اسمبلیوں اور انتخابی نتائج سے متعلق ہمارا مؤقف واضح طور پر آ گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کو دعوت دیتا ہوں کہ آئیں، ہم اپوزیشن میں بیٹھتے ہیں، الیکشن کمشن کا کردار مشکوک رہا ہے۔ الیکشن کمشن  ہمارے امیدواروں کو نوٹس دئیے بغیر درخواستیں خارج کر رہا ہے۔ ہمارے پی ٹی آئی سے اختلافات رہے ہیں۔ ایوان سب کا ہوتا ہے، ہمیں ان کے جسموں سے کوئی مسئلہ نہیں، ان کے دماغوں سے مسئلہ ہے، وہ ٹھیک ہوجائیں گے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی ہوئی تو ساتھ آجائے، اگر کوئی سمجھتا ہے کہ دھاندلی نہیں ہوئی تو وہ بیٹھ جائے اور عیاشی کرے۔ مولانا فضل الرحمان نے مزید کہا کہ ہمارا جرم یہ ہے کہ امریکا اور مغربی دنیا کے لیے جے یو آئی قابل قبول نہیں۔ بین الاقوامی مسائل پر کسی سمجھوتے کا شکار نہیں ہوں گے۔ کارکن تحریک کے لیے تیار رہیں، بعض کو پیسوں کے بدلے پوری کی پوری اسمبلیاں عطا کی گئیں۔ پشاور میں چوتھے پانچویں نمبر کے ایک افغان باشندے کو جتوا دیا گیا، الیکشن کمشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال رہا۔ پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو رہی ہے اور جمہوریت اپنا مقدمہ ہار رہی ہے۔ علاوہ ازیں قائد میاں نواز شریف سے میاں شہباز شریف نے ملاقات کی۔ پارٹی ذرائع کے مطابق شہباز شریف نے مختلف اتحادیوں سے ملاقاتوں کے بارے میں نواز شریف کو بریفنگ دی۔ ملاقات کے دوران متوقع وفاقی کابینہ کے لئے مختلف ناموں پر غور کیا گیا۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حکومت کی تشکیل کے بعد 25 رکنی وفاقی کابینہ بنائے جانے کا امکان ہے۔ ایم کیو ایم کو3 سے 5 وفاقی وزارتیں دیئے جانے پر معاملات زیر غور ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، سید مصطفی کمال، سید امین الحق اور خواجہ اظہار الحسن کے ناموں پر غور کیا جا رہا ہے۔ ذرائع نے بتایا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی جانب سے 15 سینئر لیگی رہنمائوں کے نام وفاقی وزراء کے لئے زیر غور ہیں۔ لیگی رہنمائوں میں اسحاق ڈار، سردار ایاز صادق، خواجہ آصف، احسن اقبال، مریم اورنگزیب کے نام وفاقی کابینہ کے لئے زیر غور ہیں جبکہ وفاقی کابینہ میں عطاء اللہ تارڑ، شزا خواجہ کو بھی شامل کیے جانے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ ریاض الحق جج، بلال اظہر کیانی، سردار اویس احمد خان لغاری، ڈاکٹر طارق فضل چودھری، راجہ قمر الاسلام اور رانا تنویر حسین کے نام بھی وفاقی وزرا کیلئے زیر غور ہیں۔ دریں اثناء حکومت سازی کے لئے (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی کی کمیٹی کا پہلا اجلاس ہوا۔ مسلم لیگ (ن) کی طرف سے اسحاق ڈار، ایاز صادق، اعظم نذیر تارڑ اور ملک احمد شامل تھے۔ پیپلزپارٹی کی جانب سے مراد علی شاہ، قمر زمان کائرہ، سعید غنی اور دیگر رہنما شریک ہوئے۔ کابینہ کی تشکیل کیلئے پارٹی قائدین کے تجویز کردہ ناموں پر غور کیا گیا۔ 

ای پیپر-دی نیشن