ایکس سروس مین سوسائٹی کا پی ٹی آئی کو صائب مشورہ
ایکس سروس مین سوسائٹی کے چیئرمین لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم نے پی ٹی آئی کو مشورہ دیا ہے کہ وہ -8 فروری کے انتخابات کے نتائج کو قبول کرے اور فوج اور عدلیہ کو بدنام نہ ہونے دیا جائے۔ گزشتہ روز راولپنڈی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر انتخابات کے نتائج پر کسی قسم کے تحفظات ہیں تو اس کے ازالہ کے لئے متعلقہ فورمز موجود ہیں، ان سے رجوع کیا جائے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ہم پاکستان کے ہمدرد ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ قومی سلامتی پر کوئی آنچ نہ آئے۔ ہم سپہ سالار کو بدنام کرنے کے لئے اوچھے ہتھکنڈوں کی مذمت کرتے ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ملک کی خاطر سب کو آپس میں مل بیٹھنا چاہیے۔
اس میں کوئی دورائے نہیں کہ 8 فروری 2024ء کے انتخابات کے لئے ادارہ جاتی سطح پر عزم باندھا گیا تھا جس میں چیف جسٹس سپریم کورٹ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا کلیدی کردار رہا جبکہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے پولنگ والے دن امن و امان کی خاطر افواج پاکستان کی خدمات الیکشن کمشن کے سپرد کیں چنانچہ ملک میں دہشت گردی کی گھمبیر ہوتی فضا کے باوجود پرامن طریقے سے پولنگ کا مرحلہ طے ہوا۔ پی ٹی آئی اور بعض دوسری جماعتوں کی جانب سے انتخابات کے نتائج پر تحفظات کا اظہار الیکشن کمشن کی جانب سے نتائج کے اعلان میں کی گئی تاخیر پر کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں الیکشن کمشن کا اپنا استدلال ہے۔ انتخابی مبینہ بے ضابطگیوں کا جائزہ لینے کے لئے عدلیہ اور الیکشن کمشن کی صورت میں مجاز فورم موجود ہیں جہاں متعلقہ جماعتیں اور ان کے امیدوار رجوع بھی کر رہے ہیں مگر پی ٹی آئی اور بعض دوسری جماعتوں کی جانب سے احتجاجی دھرنوں اور مظاہروں کا سلسلہ شروع کر کے ملک کو سیاسی اور اقتصادی عدم استحکام کی جانب دھکیلنے کی کوشش کی جا رہی ہے جبکہ ان عناصر کی جانب سے 9 مئی 2023ء جیسے واقعات کے اعادہ کا بھی عندیہ دیا جا رہا ہے جو بہرحال ملک دشمن عناصر کا ہی ایجنڈہ ہو سکتا ہے۔ اس تخریبی سیاست میں ریاستی ادارے اور ان کی قیادتیں مخصوص ایجنڈہ کے تحت ہدف بنائی جاتی ہیں جو ملکی اور قومی مفادات کے قطعی منافی ہے۔ ایکس سروس مین سوسائٹی کے صدر نے اسی تناظر میں بالخصوص پی ٹی آئی پر زور دیا ہے کہ اپنی سیاست میں فوج اور عدلیہ کو بدنام نہ ہونے دیا جائے کیونکہ اس سے ملک کے دشمنوں کو ہی پاکستان کی سلامتی کے خلاف اپنی سازشیں پروان چڑھانے کا موقع ملے گا۔ ملک یقینا ایسی سیاست کا متحمل نہیں ہو سکتا۔