جمعرات، 4 شعبان المعظم ، 1445ھ،15 فروری 2024ء
بلاول اور پیپلز پارٹی کی آصف زرداری کو صدر بنانے کی خواہش
پہلے اقتدار آدھا آدھا عرصہ والا ’’آدھا تیتر آدھا بٹیر‘‘ منصوبہ مسلم لیگ نون کی طرف سے رد ہونے کے بعد ناکام ہوا تو اب پیپلز پارٹی والے بھاگتے چور کی لنگوٹی ہی سہی والے محاورے پر عمل کرتے ہوئے زرداری کو صدر مملکت دیکھنا چاہتے ہے کیونکہ مرکز میں مسلم لیگ (نون) کی حمایت اور ا ن کے امیدوار کو وزارت عظمیٰ کا ووٹ دینے کا کچھ تو صلہ ان کو ملنا ہی چاہیے تاکہ ناقدین کا منہ بند کیا جا سکے کہ ہم نے یونہی حمایت نہیں کی۔ اب صدر مملکت کا عہدہ کوئی معمولی تو نہیں ہوتا صدر مملکت پورے ملک کا آئینی سربراہ اور باپ کہلاتا ہے۔ گرچہ موجودہ صدر عارف علوی یہ دونوں فرض نبھانے میں متوازن نہیں رہے وہ تمام عرصہ پی ٹی آئی کا رکن بن کر اپنے مرشد کے ورکر کا کردار ادا کرتے رہے۔ مگر آصف زرداری اتنے بودے بھی نہیں نہایت گھاک سیاستدان ہیں۔ وہ نہ تو چودھری فضل الٰہی بن کر رہ سکتے ہیں نہ عارف علوی کی طرح رہنا پسند کریں گے۔ یوں انکو صدر بنانا آسان سہی مگر ماموں بنانا مشکل ہو گا۔بہر حال اب پیپلز پارٹی والے کہہ سکیں گے کہ ان کے چیئرمین کا والد یعنی پارٹی کے بزرگ قائد اس وقت پورے ملک کی باگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں۔ یوں سمجھ لیں وہ ملک کے ساتھ پارٹی کی پریشانیوں کا بھی مداوا کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے بھی سیاست میں کچھ بعید نہیں کیا پتہ وہ جلد ہی پیپلز پارٹی والوں کو بھی حکومت میں حصہ بقدر جثہ شامل کرنے پر راضی کر لیں یوں ایک بار پھر پیپلز پارٹی والوں کی انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں ہو گا۔ نقصان میں نون لیگ بھی نہیں رہے گی کم از کم 5 سال اس طرح مل جل کر آرام سے حکومت کر سکیں گی۔ شرط یہ ہے کہ دھرنا پروگرام پھر سڑکوں پر رقص کرتا نظر نہ آئے۔
٭٭٭٭٭٭
جماعت اسلامی نے پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد کو مسترد کر دیا
نجانے پی ٹی آئی والوں نے کس ترنگ میں آ کر جماعت اسلامی سے اتحاد کانعرہ لگایا اور ساتھ یہ پخ بھی لگا دی کہ خیبر پی کے میں وہ اس کے ساتھ مخلوط حکومت بنائے گی۔ اس وقت پی ٹی آئی نے مجلس وحدت المسلمین سے بھی اتحاد کا کہا ہے جو پہلے ہی اس کی اتحادی ہے اور قومی اسمبلی میں اس کی ایک نشست بھی ہے۔ خبر تھی کہ شاید پی ٹی آئی والے آزاد ممبران اس جماعت کا نام لے کر اسمبلی میں سنگل لارجسٹ پارٹی بن جائیں گے مگر یہ بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی۔ بانی پی ٹی آئی نے ایسی تجویز کو رد کر دیا۔ پھر افواہ تھی کہ شاید جماعت اسلامی کے ساتھ کوئی معاملہ طے پائے گا مگر یہ خیال بھی حقیقت کا روپ نہ دھار سکا جماعت اسلامی والوں نے انکار کر کے اتحاد کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔یوں ہی جے یو آئی شیرانی بھی ناقابل قبول رہی تو اب یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کہہ رہے ہیں کہ آزاد ارکان اگر اپنی اکثریت ثابت کر کے حکومت بناتے ہیں ہمیں قبول ہے۔ یوں پی ٹی آئی کے آزاد ارکان اسمبلی ابھی تک برگ آوارہ کی طرح اِدھر ادھر ڈول رہے ہیں۔ خبر یہ بھی ہے کہ ان ارکان اسمبلی سے حلف نامے سے لے کر استعفے تک پارٹی نے احتیاط لے رکھے ہیں۔ یہ بے اعتمادی ہے یا احتیاطاً کہ جماعت کو اپنے آزاد پنچھیوں پر یقین نہیں۔ لطیف کھوسہ بڑی قانونی موشگافیاں جانتے ہیں۔ صدر مملکت بھی ماہر ڈاکٹر ہیں وہی کوئی راہ نکالیں تو شاید مریضان سیاست کو آرام آ ہی جائے ورنہ حکومتی مرغ یخنی کوئی اور نہ پی جائے اور مریض دیکھتا رہ جائے۔ کیونکہ جتنی تاخیر ہوتی جائے گی مرکز اقتدار اتنا ہی دور ہوتا چلا جائے گا۔ وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا اس لیے فیصلے جلد کرنے میں ہی کامیابی ہے۔
٭٭٭٭٭
عرب امارات میں طوفانی بارش برسانے والا سسٹم کراچی پہنچ گیا۔ شدید بارش کا خطرہ
لگتا ہے کراچی والوں کے بْرے دن ابھی ختم نہیں ہوئے ابھی گزشتہ بارش کے بداثرات ختم نہیں ہوئے تھے کہ محکمہ موسمیات نے خبردار کر دیا ہے کہ عرب امارات میں شدید بارش برسانے والا سسٹم جس نے عرب ممالک میں سیلاب طوفان اور ژالہ باری کا ریکارڈ قائم کیا ہے اب پاکستان میں داخل ہو رہا ہے اور اس کا پہلا پڑائوکراچی ہو گا جس طرح محمد بن قاسم کا لشکر جرار اسی خطے سے ہندوستان میں داخل ہوا تھا اسی طرح اب یہ طوفانی بارشوں والا سسٹم بھی عرب سے سندھ کی جانب بڑھتے ہوئے کراچی کے راستے اپنے جلوے دکھائے گا۔ گرچہ گوادر ، تربت، مکران وغیرہ میں بھی یہ طوفانی ہوائیں اپنا رنگ جمائیں گی۔ مگر وہ جفاکش لوگ ان طوفانوں کے عادی ہیں۔ کراچی میں تو ذرا بوندا باندی ہوئی لوگ دعائیں مانگنا شروع کر دیتے ہیں کیونکہ ہلکی سی بارش بھی کراچی کو ڈبو دیتی ہے شہریوں کا باہر نکلنا دشوار ہو جاتا ہے۔ اوپر سے نئی حکومت بھی وہی ہے جو پہلے والوں کی تھی اس کا مطلب ہے کراچی کی حالت شاید ہی بہتر ہو۔ ہاں البتہ سیاسی افراتفری کے سبب بدتر ضرور ہو سکتی ہے۔ جنہوں نے 15 سال سے کچھ نہ بدلا وہ بھلا آئندہ 5 سال میں کیا کریں گے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا فی الحال اس طوفانی بارشوں والے سسٹم سے بچائو کے لیے اقدامات کی ضرورت ہے۔ ورنہ رہی سہی ترقی کا پول بھی کھل جائے گا۔
٭٭٭٭٭
جوہر ٹائون میں ملازمہ پر وحشیانہ تشدد کرنے والے میاں بیوی گرفتار
ابھی ایک زخم بھرتا نہیں کہ دوسرا زخم لگایا جاتا ہے۔ یہ ظالم سماج نجانے کیوں اب انسانی معاشرہ کہلانے کے لائق ہی نہیں رہا۔ یہاں لگتا ہے انسان نہیں درندے بستے ہیں۔ کیونکہ اگر یہاں انسان رہتے تو یوں کم سن مجبور گھریلو ملازموں پر جن میں اکثریت کم عمر بچوں اور بچیوں کی ہوتی ہے اس طرح وحشیانہ تشدد نہ کیا جاتا۔ ان بچوں کو ان کے ظالم والدین چند ہزار روپے ماہانہ کی خاطر ان گھروں میں جو حقیقت میں اذیت گاہیں ہوتی ہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ جہاں یہ غلامی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ جہاں انہیں گرم استری سے داغا جاتا ہے۔ لوہے اور ربڑ کے پائپوں سے پیٹا جاتا ہے۔ بھوکا رکھا جاتا ہے۔ یہ گھر نہ ہوئے نازی کیمپ ہوتے ہیں۔ یہ سب ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو اسلامی نظرئیے پر قائم ہوا۔ اسلام میں تو عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور غلاموں کے حقوق کا خاص خیال رکھنے کا حکم ہے اور ہم ہیں کہ ان حقوق کو نہایت بے شرمی سے پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ قانون میں بچوں سے مشقت لینے پر پابندی ہے۔ اس کی سزا بھی سخت ہے۔ مگر ہمارے ہاں زیادتی، قتل اور جلانے کے واقعات پر شاید ہی کسی ظالم مالک کو سخت سزا ملی ہو۔ مرد اور خواتین کی تفریق نہیں یہاں تو مالک سے زیادہ مالکن جلاد صفت نظر آتی ہیں کیا عورت کا دل بھی اتنا پتھر ہو جاتا ہے کیا اسے اپنی اولاد نظر نہیں آتی اس لیے اب مرد ہو یا عورت جو بھی ملازم بچوں پر تشدد میں ملوث ہوں ان کو بھی سخت ترین سزا دی جائے ہاتھ کے بدلے ہاتھ آنکھ کے بدلے آنکھ اور جلانے کے بدلے میں اسی اذیت سے دوچار کیا جائے تاکہ انہیں جلنے کی درد کا اندازہ ہو۔
٭٭٭٭٭