• news

 ٹریفک پولیس لاہور اور ٹیپا کے نام 

آج سے ٹھیک ایک سال پہلے سٹی ٹریفک پولیس لاہور اور ٹریفک انجینئرنگ اینڈ ٹرانسپورٹ پلاننگ ایجنسی (ٹیپا) کے افسران کا ایک مشترکہ اجلاس ہوا تھا جس میں شہر میں سڑکوں اور ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کے لیے کچھ اہم فیصلے کیے گئے تھے۔ اس اجلاس میں کچھ سنجیدہ مسائل کی نشان دہی بھی کی گئی تھی۔ اگر اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پر عمل درآمد کرلیا جاتا تو یہ ٹریفک پولیس اور ٹیپا کا ایک اہم کارنامہ ہوتا جس کے لیے شہری ان کے شکر گزار ہوتے لیکن ایسا ہوا نہیں اور مذکورہ اجلاس کی کارروائی تقریباً ہر سرکاری اجلاس کی طرح نشستند گفتند برخاستند کی حد تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اسی لیے آج بھی صوبائی دارالحکومت کی شاید ہی کوئی ایسی اہم سڑک ہو جس پر صبح، دوپہر اور شام کے اوقات میں بے تحاشا رش نہ ہوتا ہو اور شہریوں کو وہاں شدید مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑتا ہو۔ ظاہر ہے اس سب کے لیے ٹریفک پولیس اور ٹیپا کو ہی ذمہ دار قرار دیا جائے گا کیونکہ شہر میں ٹریفک کے نظام کو بہتر بنانے کی ذمہ داری ان دونوں اداروں کو تفویض کی گئی ہے۔
ٹیپا کی بات کی جائے تو یہ ادارہ سرکاری کاغذوں میں تو پتا نہیں کیا حیثیت رکھتا ہے لیکن عملی طور پر یہ فعال دکھائی نہیں دیتا، اور اس بات کا اندازہ اس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ شہر میں درجنوں اہم مقامات پر ٹریفک اشارے خراب ہیں، سڑکوں پر نشانات کا کوئی انتظام نہیں ہے اور نہ ہی بہت سی جگہوں سے تجاوزات ہٹانے کے لیے کوئی کارروائی کی گئی ہے۔ نگران وزیراعلیٰ محسن نقوی کے حکم پر تجاوزات ہٹانے کے لیے تقریباً دو ماہ پہلے ایک کارروائی کی تو گئی تھی لیکن بہت محدود سطح پر۔ اس بات کا ایک ثبوت یہ ہے کہ لاہور کی اہم ترین سڑکوں میں سے ایک لوئر مال روڈ ہے جس پر ایوانِ عدل اور سول سیکرٹریٹ بھی واقع ہیں۔ اس سڑک کے دونوں جانب صبح سے لے کر سہ پہر تک دو تہائی حصہ گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں کا پارکنگ سٹینڈ بنا ہوتا ہے اور ایک تہائی حصہ گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے کھلا ہوتا ہے۔ ظاہر ہے اس صورتحال میں شہریوں کو بہت پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وزیراعلیٰ سے لے کر چیف ٹریفک پولیس آفیسر تک کوئی بھی اس مسئلے کا حل فراہم نہیں کرسکتا کیونکہ وہ وکلاء الجھنا نہیں چاہتے۔
اس سلسلے میں ایک افسوس ناک بات یہ ہے کہ ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو عملی طور پر نوٹ چھاپنے والی مشینوں کی طرح استعمال کیا جاتا ہے، یعنی انھیں روزانہ کی بنیاد پر ایک خاص تعداد میں چالان کاٹنے کا ٹارگٹ دیدیا جاتا ہے اور ان کی کارکردگی کا جائزہ لینے کے لیے اسی بات کو بنیاد بنایا جاتا ہے کہ انھوں نے چالان کاٹنے والا ٹارگٹ پورا کیا ہے یا نہیں۔ اس حوالے سے ہیلمٹ نہ پہننے والے موٹرسائیکل سوار ٹریفک وارڈنز کے لیے آسان ترین شکار ہیں اور ان کی ساری توجہ انھی پر ہوتی ہے لیکن اس دوران یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ پولیس /ٹریفک پولیس اہلکار، وکیل، صحافی اور تگڑے سرکاری و نیم سرکاری محکموں کے اہلکاروں کا چالان نہیں کرنا، یعنی صرف عام آدمی کو نشانہ بنانا ہے۔ اسی لیے ایسے مناظر اکثر دیکھنے کو ملتے ہیں کہ لوئر مال روڈ اور مال پر کھڑے ٹریفک وارڈنز عام شہریوں کو پکڑ ان کے چالان کاٹ رہے ہوتے ہیں اور قریب سے موٹر سائیکلوں پر سوار بغیر ہیلمٹ کے پولیس اہلکار اور وکیل اپنی اپنی وردیاں پہنے گزر رہے ہوتے ہیں جن میں سے کئی ایک کی موٹر سائیکلوں پر نمبر پلیٹس بھی نہیں لگی ہوتیں۔
موٹرسائیکل چلاتے وقت ہیلمٹ پہننا اگر لازمی ہے تو پھر اسے صرف عام شہری کے لیے ہی نہیں بلکہ ہر شخص کے لیے لازمی ہونا چاہیے، خواہ وہ کسی بھی محکمے یا پیشے سے وابستہ ہو۔یہ بھی ایک دلچسپ بات ہے کہ ٹریفک پولیس کی طرف سے ہیلمٹ نہ پہننے پر تو عام شہریوں کا چالان کیا جاتا ہے لیکن ان عقبی آئینوں کے بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جاتا جن کی اہمیت ہیلمٹ سے بھی زیادہ ہے کیونکہ ہیلمٹ تو حادثہ ہونے کی صورت میں جان بچاتا ہے جبکہ عقبی آئینے حادثات کو وقوع پذیر ہونے سے روکنے میں مدد دیتے ہیں۔ لاہور میں ننانوے فیصد سے زائد موٹرسائیکلوں پر عقبی آئینے نہیں لگے ہوں گے اور ان کے نہ ہونے کی وجہ سے موٹرسائیکل سوار دائیں بائیں مڑتے ہوئے یا تو گردن گھما کر پیچھے دیکھتا ہے کہ کوئی آ تو نہیں رہا یا اس بات کی زحمت ہی گوارا نہیں کرتا کہ پیچھے دیکھے جس سے حادثہ ہونے کے امکانات کئی گنا بڑھ جاتے ہیں۔ شہر میں درجنوں مقامات پر ہیلمٹ کی اہمیت کے بارے میں بورڈز لگے ہوں گے لیکن شاید کسی ایک بھی جگہ عقبی آئینوں کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ملتا۔
اسی طرح لاہور شہر میں ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال گزشتہ چند برسوں میں بہت بڑھ گیا ہے اور اب صورتحال یہ ہوچکی ہے کہ ہر سڑک پر ایسے موٹرسائیکل سوار نظر آ جاتے ہیں جو ایک ہاتھ سے موٹرسائیکل چلاتے ہوئے دوسرے ہاتھ سے یا تو فون سن رہے ہوتے ہیں یا پیغام لکھ رہے ہوتے ہیں۔ اس شہر میں یہی حرکت کرنے والے کار ڈرائیوروں کی بھی کمی نہیں لیکن ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو ان سے کوئی سروکار نہیں بلکہ کئی جگہوں پر تو یہ مناظر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ٹریفک اہلکار خود کہیں ایک طرف بیٹھ کر موبائل فون استعمال کررہے ہوتے ہیں، ٹریفک رکتی ہے تو رک جائے، حادثہ ہوتا ہے تو ہو جائے، انھیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ کم از کم دو بار میرے ساتھ ایسا ہوچکا ہے کہ ایک ایمبولینس اور ایک فائر بریگیڈ کی گاڑی کو ٹریفک سے نکلوانے کے لیے ایک طرف کھڑے ٹریفک وارڈن کو جا کر بتانا پڑا لیکن اسے گاڑی کا سائرن سننے کے باوجود خود اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ وہ اپنی جگہ سے ہل کر اپنا فرض ادا کرلے۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن