الیکشن 2024ء۔ سیاسی استحکام کی ضرورت
8فروری 2024ء کو الیکشن کا شفاف‘ غیر جانبدارانہ اور پرامن انعقاد ہوا جس پر الیکشن کمیشن‘ مسلح افواج‘ سول ادارے اور نگران حکومت مبارکباد کی مستحق ہے۔ الیکشن کے پرامن و منصفانہ انعقاد پر آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی قوم کو مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ ملک سیاستدانوں نے سنبھالنا ہے اور منتخب ہونے والے آپس میں اتفاق رائے سے ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں۔ اندرونی و بیرونی خطرات کے باوجود پرامن اور منصفانہ الیکشن کا انعقاد خوش آئند ہے۔ الیکشن کے دوران مجموعی طور پر ملک بھر میں امن و امان برقرار رہا اور عوام نے بھاری تعداد میں گھروں سے نکل کر اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔ ملک بھر میں ایک ساتھ الیکشن کا انعقاد جمہوری عمل کے استحکام کی جانب بہت بڑا قدم ہے۔ ملک نفرت کی سیاست کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اتنی بڑی آبادی والے ملک کو مضبوط ہاتھوں کی ضرورت ہے۔ سیاستدان مل جل کر ملک کی ترقی کے لئے کام کریں۔ نگران حکومت نے بھی اپنے نگران دور حکومت میں ملک کو بہترین طریقے سے چلایا اور معاشی استحکام کی جانب اچھے اقدامات اٹھائے گئے جس سے مہنگائی کی شرح میں کمی ہوئی۔ اس قدر موثراور بہترین نگران حکومت تاریخ میں پہلی بار دیکھنے کو ملی۔
الیکشن کے نتائج کے مطابق وفاق میں ن لیگ اور پیپلزپارٹی ملکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ بہتر تو یہی ہوگا کہ ن لیگ کھلے دل کا مظاہرہ کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کو وزارت عظمٰی کی پیشکش کردے۔ اگر ایسا نہیں کیا جاتا تو پارلیمنٹ کی مدت کا نصف عرصہ ن لیگ اور نصف عرصہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہو۔ بلاول بھٹو زرداری نوجوان ہیں اور وہ اپنی صلاحیتوں سے ملک کو بہتر انداز سے چلاسکتے ہیں۔ وہ ملک کی خارجہ پالیسی کو بھی موثر طریقے سے دنیا میں پیش کرسکتے ہیں۔ پیپلزپارٹی اور ن لیگ کی حکومت کے ساتھ دیگر جماعتوں کو بھی بھرپور تعاون کرنا چاہئے تاکہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہوسکے۔ اب نئی اسمبلیاں وجود میں آچکی ہیں تو باہمی سیاسی معاملات کو پارلیمنٹ کے پلیٹ فارم پر بات چیت کے ذریعے حل کرنے کا طریقہ ہونا چاہئے اور سڑکوں کی سیاست کا خاتمہ بہت ضروری ہے۔
الیکشن نتائج پر جس امیدوار کو اعتراضات ہیں وہ متعلقہ قانونی طریقہ کار اختیار کرکے نتائج کی جانچ پڑتال کراسکتا ہے۔ الیکشن نتائج میں کسی بھی قسم کی دانستہ غلطی پر ذمہ داران کے خلاف سخت کارروائی ہونی چاہئے اور کسی بھی طرح کی جانبداری کو برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ کہیں بھی کسی شخص نے اگر نتائج کی تبدیلی کی ہے اور ثابت ہوجاتا ہے تو اس کے خلاف سخت ایکشن بہت ضروری ہے۔ الیکشن کے سارے عمل کے بعد نتائج کے شفاف طریقے سے اعلان تک کو ہر صورت یقینی بنایا جانا چاہئے۔ کسی کا بھی مینڈیٹ چرانے والوں کو قطعی برداشت نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس معاملے میں ادارے اپنی ذمہ داریاں خوش اسلوبی سے ادا کریں۔ الیکشن نتائج پر اعتراض کے معاملے پر سڑکوں کی سیاست کسی بھی طور پر درست نہیں ہوگی اور اس سے معاشرے میں انتشار پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔ ملک پہلے ہی سیاستدانوں کی نااہلی‘ ضد و انا کی وجہ سے بدترین معاشی حالات کا شکار ہے اور اب مزید سیاسی انتشار سے ملک کو صرف نقصان ہی ہوگا۔ اگر اب سیاسی معاملات باہمی بات چیت کے ذریعے طے کرنے کا طریقہ کار طے نہ کیا گیا اور انتشار کی سیاست کی گئی تو پھر سسٹم کو نقصان پہنچنے کے ذمہ دار بھی سیاستدان ہی ہوں گے۔ کیونکہ آرمی چیف نے تو الیکشن کے پرامن و منصفانہ انعقاد پر واضح بیان دیا ہے کہ ملک سیاستدانوں نے چلانا ہے اور وہ مل بیٹھ کر ملک کی ترقی و خوشحالی کے لئے کام کریں۔ ان نیک خواہشات کے بعد اگر سیاستدان ذاتی ضد‘ انا اور اقتدار کو اولین ترجیح دیکر حالات کو خرابی کی جانب لے جاتے ہیں تو ملک سنبھالنے کے لئے اداروں کو آگے آنا ہوگا لیکن اس کی تمام تر ذمہ داری سیاستدانوں پر ہی عائد ہوگی۔
الیکشن نتائج کے مطابق خیبرپختونخواہ میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار بھاری اکثریت سے کامیاب ہوئے ہیں اسی لئے خیبرپختونخواہ میں ان کی حکومت بنے گی۔ وفاق اور صوبائی حکومت میں بہترین تعلقات قائم رکھ کر ملک کی خوشحالی کے لئے کام کرنا اور دلوں میں جگہ بناکر سیاسی استحکام کا قیام سیاسی جماعتوں کی مجموعی ذمہ داری بنتی ہے۔ تاکہ وہ عوام کے دیئے گئے مینڈیٹ کے مطابق عوام کے مسائل مل جل کر بہتر انداز میں حل کرسکیں اور ملک کو درپیش معاشی مشکلات سے نکالا جاسکے۔ اس کے لئے تمام سیاسی قوتوں میں باہمی روابط بہت ضروری ہیں۔
بلوچستان میں پیپلزپارٹی‘ ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام (ف) ملکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں اور ان تینوں جماعتوں کو ملکر بلوچستان میں حکومت بنانی چاہئے۔ اسی طرح سندھ میں پیپلزپارٹی کو اکثریت حاصل ہوئی ہے لیکن بہتر ہوگا کہ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلزپارٹی ملکر سندھ کی صوبائی حکومت تشکیل دیں تاکہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والے کراچی شہر کے دیرینہ مسائل مل جل کر حل کئے جائیں اور ملک کا سب سے بڑا شہر دیرینہ مسائل کے گرداب سے نکل سکے۔ اس کے لئے پیپلزپارٹی کو فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کو صوبائی حکومت میں مناسب حصہ دیکر ایک دوسرے کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا تاکہ عوام سے لئے گئے ووٹ کا حق ادا کرتے ہوئے پورے صوبے کے عوام کے بنیادی مسائل حل کئے جاسکیں۔
پنجاب میں بھی مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی ملکر حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن کو فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پیپلزپارٹی کو مناسب وزارتیں دیکر صوبائی حکومت کا حصہ بنانا چاہئے اور آزاد اراکین سے بھی حمایت کے حصول کی کوششوں سے ن لیگ کی پوزیشن مزید مستحکم ہوگی۔
جمہوریت کے استحکام کی ذمہ داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اداروں نے تو اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرکے شفاف انتخابات منعقد کرادیئے اور انتقال اقتدار کے آئینی طریقہ کار پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد جاری ہے۔ اس نظام سے ملک کو فائدہ پہنچانا اور استحکام بخشنا تمام منتخب نمائندوں کی ذمہ داری ہے۔ امید کی جاسکتی ہے کہ سیاستدان اپنے ماضی کے رویوں پر نظرثانی کرکے ملک کو سیاسی استحکام بخشیں گے اور ملک کو معاشی استحکام کی جانب لے جانے کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کریں گے۔