صوبے سیاسی سرگرمیوں کا محور بننے لگے
الیکشن 2024ء کے غلغلے میں جہاں ایک جانب حکومت سازی کے لئے اتحاد وجود میں آرہے ہیں تو دوسری جانب ناکام امیدواروں اور جماعتوں میںبھی باقاعدہ اتحاد تشکیل پا رہے ہیں۔ منگل کو رات گئے گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے نائب صدر ڈاکٹر صفدر عباسی اور جنرل سیکریٹری سردار عبد الرحیم کی زیر قیادت وفد نے ادارہ نورحق میں امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان سے ملاقات کی، جس میں عام انتخابات میں بد ترین دھاندلی اور مینڈیٹ چوری کے خلاف آئندہ کے لائحہ عمل کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس دوران جی ڈی اے کی جانب سے جماعت اسلامی کو حیدرآباد ٹول پلازہ پر احتجاجی دھرنے میں شرکت کی دعوت دی گئی جسے حافظ نعیم الرحمن نے قبول کیا اور دھرنے میں شرکت کی یقین دہانی کرائی۔
قومی سطح پر شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کے اعلان کے ساتھ ہی کسی حد تک توڑ جوڑ کے معاملات بھی طے پا چکے ہیں۔ اس حوالے سے منگل کو صبح سویرے گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری اچانک سرگرم ہوئے اور انہوں نے دو مفتیان کرام جناب مفتی منیب الرحمن اور مفتی تقی عثمانی سے ملاقات کے ساتھ اپنی سرگرمیوں کا آغاز کیااور ان سے ملکی استحکام کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی۔ بعدازاں انہوں نے پیر پگاڑا ‘چوہدری شجاعت حسین‘ چودری سالک حسین‘ سراج الحق سے فون پہ رابطہ کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ پوری دنیا کی نظریں ہم پر ہیں اور یہی وقت ہے کہ ہم ملک کی مفاد کی خاطر ایک ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ انہوں نے سراج الحق سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے جماعت اسلامی پاکستان کی امارت سے استعفا واپس لینے کی بھی اپیل کی۔ گورنر سندھ کی کوششیں کہاں تک بارآور ثابت ہوئیں؟ اس حوالے سے تو کچھ کہنا مشکل ہی ہے تاہم سرشام ہی وہ اسلام آباد پہنچے جہاں حکومت سازی کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھنے کو ہی تھا اور رات کو اتحادی قومی جماعتوں کے سربراہوں کی مشاورت کے بعد ہونے والی پریس کانفرنس میںکراچی سے جہاں ایم کیو ایم پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی شریک تھے وہیں گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری اور پیپلز پارٹی رہنما ڈاکٹر عاصم حسین بھی موجود نظر آئے۔ متذکرہ پریس کانفرنس میںقوم نے شہباز شریف کو وزیراعظم بنانے کی متوقع اطلاع سنی جس کے ساتھ ہی اب سیاسی سرگرمیوں کا محور صوبے بننے جا رہے ہیں جہاں سندھ میں پاکستان پیپلز پارٹی بلا شرکت غیرے حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہے تاہم مرکز میں حکومت سازی میں شراکت کے ساتھ ہی اب سندھ حکومت میں بھی متوقع طور پر شراکت کا قوی امکان ہے۔ سندھ اسمبلی میں غالب اکثریت کے سبب اب پاکستان پیپلز پارٹی اپنی تمام تر توجہ بلوچستان میں جوڑتوڑ کر کے حکومت بنانے کیلئے زور بازو آزمائے گی۔
منگل کو ہی سندھ ہائی کورٹ کا ایک فیصلہ ہاری ہوئی سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی توقعات پر بھی پانی پھیرتا ہوا دکھائی دیا کہ جب سندھ ہائی کورٹ نے 40 سے زائد قومی و صوبائی حلقوں کے انتخابی نتائج کے خلاف درخواستوں پر پٹیشنرز کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا۔ اس سارے کیس میں ایڈوکیٹ جبران ناصر بیرسٹر سرا الدین تمام تر دلائل کے باوجود چیف جسٹس کو اس بات پر قائل نہ کر سکے کہ وہ الیکشن کمیشن کو درخواستوں پر فیصلہ ہونے تک حتمی نوٹیفکیشن جاری کرنے سے روکنے کاحکم دیں۔ ایک طرف عدالت درخواست گزاروں کو الیکشن کمیشن سے رجوع کرنے کا حکم دے رہی تھی تو دوسری جانب جماعت اسلامی کے حافظ نعیم الرحمن سمیت کئی افراد سندھ ہائی کورٹ میں مزید پٹیشنرز دائر کر رہے تھے۔
ادھر الیکشن کمیشن اف پاکستان نے کراچی سے قومی اسمبلی کے تمام کامیاب امیدواروں کے نوٹی فکیشن بھی جاری کردیئے جس کی ابتدا پیر اور منگل کی درمیانی شب قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 238 سے ایم کیوایم پاکستان کے امیدوار صادق افتخار کے نوٹیفکیشن سے ہوئے جبکہ بدھ کو کراچی کے بقیہ 21 حلقوں کے نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیئے گئیجن میں این اے 229 سے پی پی کے جام عبدالکریم، این اے 230 سے پی پی کے رفیق اللہ، این اے 231 سے پی پی کے عبدالحکیم بلوچ، 232 سے ایم کیوایم کی آسیہ اسحاق کو کامیاب قرار دیا گیا۔ نوٹیفکیشن میں این اے 233 سے ایم کیوایم کے جاوید حنیف، این اے 234 سے ایم کیوایم کے معین عامر، این اے 235 سے ایم کیوایم کے اقبال خان، این 236 سے ایم کیوایم کے حسن صابر، این اے 237 سے پی پی کے اسدعالم نیازی کامیاب قرار پائے۔ اس کے علاوہ این اے 239 سے پی پی کے نبیل گبول، این اے 240 سے ایم کیوایم کے ارشد وہرہ، این اے241 سے پی پی کے اختیاربیگ، این اے 242 سے ایم کیوایم کے مصطفیٰ کمال، این اے 243 سے پی پی کے عبد القادر پٹیل، این اے 244 سے ایم کیوایم کے فاروق ستار کامیاب قراردیے گئے ہیں۔ نوٹیفکیشن کے مطابق این اے 245 سے ایم کیوایم کے حفیظ الدین، این اے 246 سے ایم کیوایم کے امین الحق، این اے 247 سے ایم کیوایم کے خواجہ اظہار الحسن، این اے 248 سے ایم کیوایم کے خالدمقبول صدیقی، این اے 249 سے ایم کیوایم کے احمدسلیم صدیقی اور این اے 250 سے ایم کیوایم کے فرحان چشتی کو کامیاب قراردیا گیا۔
قومی سیاست میں متعدد سیاسی جماعتیں تنظیم سازی اور فیصلہ کن معاملات میں ایم کیو ایم کی تقلید کرنے پر مجبور ہیں۔ ایم کیو ایم کے تمام فیصلے رابطہ کمیٹی کرتی ہے پارٹی سربراہ بھی رابطہ کمیٹی کے بغیر کسی اہم فیصلے کی قوت نہیں رکھتا۔ اب پاکستان پیپلز پارٹی نے اس طریقہ کار کی تقلید کرتے ہوئے ’’پی پی پی پی رابطہ کمیٹی‘‘ قائم کر دی ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے تمام اختیارات پیپلزپارٹی رابطہ کمیٹی کو سونپ دیئے۔ پیپلزپارٹی کی رابطہ کمیٹی سیاسی جماعتوں سے رابطے کرے گی۔ کمیٹی اراکین میں مرادعلی شاہ،قمرزمان کائرہ،ثنااللہ زہری ندیم افضل چن، سعیدغنی اور شجاع خان شامل ہیں۔