مریم نواز پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلیٰ ہونگی
عام انتخابات کے نتائج کو سب نے قبول کرلیا ہے اور مسترد بھی کردیا ہے تاہم اب حکومت سازی کا عمل شروع ہوگیا ہے آزاد ارکان کی اکثریت چونکہ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ ہے اس لئے وہ بانی پی ٹی آئی کی جانب سے کئے جانے والے فیصلوں کی مرہون منت ہے کہ ان کا سیاسی مستقبل کیا ہوگا۔ جبکہ پی ٹی آئی نے ہی عوام کو یہ شعور بھی د یا کہ کیا ہم غلام ہیں اور اپنے آزاد ارکان کو پارٹی پالیسی کا غلام بھی بنادیا ہے خیر یہ مسئلہ اپنی جگہ پر موجود رہے گا کہ آزاد ارکان اپنی آزادی برقرار رکھیں گے یا پھر اسی غلامی میں خدمات کی فراہمی جاری رکھیں گے قارئین انتخابی نتائج نے جہاں سب کو حیران کیا ہے وہاں موجودہ سیاسی حالات میں قومی سلامتی جمہوری استحکام کیلئے شاید اسی طرح کے نتائج ناگزیر تھے تو پھر اب ان کو لیکر سر پیٹنے کے علاوہ کسی کے پاس کو ئی آپشن نہیں ہے تاہم مسلم لیگ ن کی قیادت نے دانشمندی کا مظاہرہ کیا ہے اور حکومت سازی کہ جانب قدم بڑھا دیا ہے اب عام انتخابات کے نتائج کے بعد صورتحال مختلف ضرور ہوئی ہے لیکن مایوس کن نہیں یہی وہ حوصلہ افزاء نکتہ ہے جسے خوش آئند قرار دیاجا سکتا ہے مسلم لیگ ن عام انتخابات کے نتائج کو تسلیم کرچکی ہے حالانکہ سب سے زیادہ سیاسی نقصان مسلم لیگ ن کو ہوا ہے ن لیگ کے بڑے بڑے رہنما انتخابی میدان میں ہار چکے ہیں جن میں خواجہ سعد رفیق رانا ثنا ء اللہ عابد شیر علی خرم دستگیر اور میاں جاوید لطیف اہم ہیں یہ وہ برج تھے جو الٹ گئے ہیں اسکے باوجود مسلم لیگ ن نے اسطرح سے دھاندلی کا ڈھنڈھورا نہیں پیٹا جس طرح کے پی کے میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ امیدواروں کی بھاری اکثریت نے میدان مارا ہے اسکے باوجود جتنی شدت سے پی ٹی آئی نے دھاندلی کا واویلا کیا ہوا ہے وہ بھی حیرت انگیز ہے کہنے والے کہتے ہیں کہ وہی الیکشن کمیشن کے پی کے میں دھاندلی کیوں نہیں کرواسکا۔اور وہاں پر اگر پی ٹی آئی کی مرضی کے نتائج آئے ہیں تو وہ درست ہیں حتی کہ لاہور سے خواجہ سعد رفیق کی شکست اور لطیف کھوسہ کی جیت پر وہ مطمئن ہیں یعنی کے پی ٹی آئی کا دوہرا منافقانہ رویہ عیاں ہے اور وہ حسب روایت اس میں کامیاب بھی ہیں قارئین مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف جو کہ وزیر اعظم کے امیدوار بھی ہیں ان کی جانب سے پی ٹی آئی کو دی جانے والی آفر بھی قابل تحسین ہے کہ اگر وہ اپنے آزاد ارکان کیساتھ وفاق میں حکومت بنا سکتے ہیں تو ضرور بنائیں شہباز شریف نے یہ پیشکش کرکے ثابت کیا ہے کہ وہ سیاستدان ہیں حالانکہ ٹیکنیکلی پی ٹی آئی اکثریت کے باوجود حکومت نہیں بنا سکتی۔قانونی پیچیدگیاں جو اس عمل میں رکاوٹ ہیں وہ بھی پی ٹی آئی قیادت کی نااہلی اور سستی کی وجہ سے ہیں جبکہ اس کا ملبہ بھی وہ اداروں پر ڈالنے کا جھوٹا پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں۔موجودہ صورت حال میں شہباز شریف بہترین چوائس ہیں اپنی انتظامی صلاحیتوں اور انتھک خدمت کے جذبے سے سرشار شہباز شریف پھر سے اسی سلسلے کو آگے بڑھا سکیں گے جو سولہ ماہ کیدوران انہوں نے ادھورا چھوڑدیا تھا پاکستان کو عالمی سطح پر درپیش چیلنجز ہوں یا اندرونی خلفشار ہو شہباز شریف سب سے نمٹنے کا ہنر بخوبی جانتے ہیں۔قارئین کے پی کے اور بلوچستان میں نتائج کے حوالے سے احتجاج جاری ہے جو وقت گزرنے کیساتھ اعتدال پر آجائے گا۔ پنجاب میں مسلم لیگ ن اکثریت حاصل کرچکی ہے اور مریم نواز آئندہ پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلی ہونے کے اعزاز کیساتھ میدان میں اتر رہی ہیں جو پنجاب کی عوام کیلئے بہت بڑی اعزاز کی بات ہے جبکہ ان پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ ان کو اس حوالے سے تجربہ نہیں ہے جبکہ مریم نواز ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا چکی ہے اور سیاست ہو یا عوامی خدمت انہیں یہ چیز اپنے والد کی جانب سے ورثے میں ملی ہے کیو نکہ وہ میاں نوازشریف کی بیٹی ہے میاں نوازشریف کی طرح عوام کی خدمت کا جذبہ وہ دل میں رکھتی ہیں مریم نواز پر تنقید کرنے والے بغیر کسی وجہ کے شریف خاندان سے بغض کے مارے ہیں اور یہ وہی لوگ ہیں جو عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس کے القاب سے پکارتے رہے ہیں عثمان بزدار جو پنجاب کی تاریخ کا نا اہل ترین وزیر اعلی تھا اور پی ٹی آئی کے بانی اس کی تعریفیں کرتے نہیں تھکتے تھے۔پنجاب میں تعمیروترقی و خوشحالی کے نئے دور کا آغاز مریم نواز کریں گی اور اپنے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے صوبے کی عوام کو درپیش مسائل ختم کریں گی۔مریم نواز نے بھی اپنے والد چچا کی طرح اپنے سیاسی سفر کا اغاز پنجاب کی وزارت اعلی سے کررہی ہیں مریم نواز کے سامنے میاں نواز شریف میاں شہباز شریف کے علاوہ دہلی کے وزیر اعلی اروند کیجریوال کی صوبے میں حکومت کا ماڈل موجود ہے مریم نواز پنجاب کی قسمت بدلنے کے۔لئیے محنت کریں گی کسی بھی سیاسی حکومت کی کامیابی میں اگر بیوروکریسی کو کریڈٹ نہ دیا جائے تو یہ انصاف نہ ہوگا اس وقت صوبے میں انتظامی افسران کی ذیادہ تعداد میاں شہباز شریف سے کمفرٹ لیول رکھتی ہے اسلئیے اکثر و بیشتر افسران وزیراعظم کی ٹیم کے طور پر وفاق میں چلے جائیں گے منجھے ہوئے بیوروکریٹس میں بابر حیات تارڑر جو اسوقت گریڈ بائیس کے سئنیر ترین منصب پر ہیں اور مسلم لیگ ن فیملی سے خاصی قربت بھی رکھتے ہیں اپنے قریبی رشتہ داروں کی وجہ سے شریف برادران سے محبت اور وفاداری کے جذبے سے بھی سرشار ہیں بابر حیات تارڑر منجھے ہوئے ایماندار افسران کی معراج سمجھے جاتے ہیں وہ مختلف حکومتوں کے ساتھ کام کرچکے ہیں بابر حیات تارڑر کا پنجاب کے چیف سیکرٹری کے لئیے انتخاب مریم نواز کی پہلی وزارت اعلی کے لئیے کامیابی کا باعث بن سکتا ہے بابر حیات تارڑر اعلی خاندانی اقدار روایات کے حامل افسر ہیں جو اپنی پنجاب میں بیوروکریسی کی ایسی ٹیم بنا نے کی مہارت رکھتے ہیں جو سیاسی حکومت کی کامیابی میں اہم سنگ میل ہو سکتا ہے ۔