’’ ساتھ دیں ‘‘ پی ٹی آئی وفد کی فضل الرحمن سے ملاقات
اسلام آباد؍راولپنڈی؍ سکھر؍ پشاور (وقائع نگار+ خبر نگار+ نوائے وقت رپورٹ+ اپنے سٹاف رپورٹر سے+آئی این پی) پی ٹی آئی وفد نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ وفد کی قیادت پولیٹیکل کمیٹی کے سربراہ اسد قیصر نے کی۔ مولانا فضل الرحمن نے پی ٹی آئی وفد کا خیر مقدم کیا۔ پی ٹی آئی وفد میں اسد قیصر، عامر ڈوگر، عمیر نیازی اور بیرسٹر سیف شامل تھے۔ ملاقات میں سینیٹر طلحہ محمود اور اسجد محمود بھی موجود تھے۔ ملاقات میں حالیہ انتخابات اور سیاسی صورتحال پر بات چیت کی۔ حالیہ انتخابات میں مبینہ دھاندلی سمیت تحفظات پر تبادلہ خیال کیا۔ پی ٹی آئی وفد نے بانی پی ٹی آئی کا پیغام مولانا فضل الرحمن تک پہنچایا۔ پی ٹی آئی وفد نے انتخابات میں مبینہ دھاندلی اور اپوزیشن میں ساتھ چلنے کی دعوت دی۔ پی ٹی آئی رہنما عامر ڈوگر نے نجی ٹی وی کو بتایا کہ مولانا فضل الرحمن کے گھر وزیراعظم کا ووٹ لینے گئے۔ شیر افضل مروت نے کہا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی دونوں اطراف سے سخت بیانات دیئے جاتے تھے۔ مولانا نے جو رویہ اپنایا وہ انتہائی خوش آئند تھا جس کی ہم توقع نہیں کر رہے تھے۔ بانی پی ٹی آئی نے تاکید کی نیوز کانفرنس میں جے یو آئی کا نام لینا ہے۔ دھاندلی کے حوالے سے مولانا اور ہمارا مؤقف ایک ہے۔ جے یو آئی ف کے رہنما حافظ حمد اللہ نے مولانا فضل الرحمن سے پی ٹی آئی وفد کی ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں کہا ہے کہ آٹھ فروری کے بعد ایک سیاسی منظر نامہ نظر آ رہا ہے۔ جے یو آئی انتخابی نتائج کو مسترد کرتی ہے۔ پی ٹی آئی کی قیادت کی طرف سے ایک مؤثر وفد نے مولانا فضل الرحمن سے ملاقات کی۔ پی ٹی آئی نے بھی کہا کہ الیکشن کو شفاف نہیں کہہ سکتے۔ آٹھ فروری کا الیکشن جعلی اور دھاندلی زدہ ہے۔ یہ عوامی مینڈیٹ نہیں۔ دونوں جماعتیں اس بات پر متفق ہیں کہ اس الیکشن کو صاف و شفاف نہیں کہا جا سکتا۔ اتفاق تھا کہ یہ دھاندلی زدہ الیکشن تھا۔ اس الیکشن سے سیاسی و معاشی استحکام نہیں آئے گا۔ دونوں پارٹیوں کا اس بات پر اتفاق ہے باقی چیزیں آگے پر چھوڑتے ہیں۔ پی ٹی آئی رہنما بیرسٹر سیف نے کہا کہ بہت خوشگوار ماحول میں بات چیت ہوئی۔ بانی پی ٹی آئی کی ہدایت پر اسد قیصر کی سربراہی میں پی ٹی آئی وفد مولانا فضل الرحمن کے پاس آیا۔ پی ٹی آئی 17 فروری کو ملک گیر احتجاج کرے گی۔ جے یو آئی ف نے بھی الیکشن پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الیکشن دھاندلی زدہ ہیں۔ الیکشن میں عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ بددیانتی ہوئی ہے۔ یہ تحریک جاری رہے گی۔ دریں اثناء عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) نے پاکستان تحریک انصاف کے احتجاج میں شامل ہونے سے معذرت کر لی۔ اسد قیصر نے عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما میاں افتخار حسین سے رابطہ کیا۔ اسد قیصر نے اے این پی کو انتخابات میں مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج میں شامل ہونے کی دعوت دی۔ میاں افتخار کا کہنا ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی نے کسی بھی پلیٹ فارم پر پی ٹی آئی سے تعاون پر معذرت کی ہے۔ اے این پی رہنما نے مزید کہا کہ خیبر پی کے میں دھاندلی کے ذریعے پی ٹی آئی کو حکومت دی گئی ہے۔ اے این پی کا مؤقف ہے کہ یہاں پی ٹی آئی کو سپورٹ کیا گیا اور ہمیں ہرایا گیا۔ علاوہ ازیں بیرسٹر گوہر نے (ن) لیگ اور پی پی کے ساتھ اتحاد کے خبروں کی تردید کردی اور کہا کہ عمران خان کا واضح موقف ہے کہ ان جماعتوں سے کسی صورت اتحاد نہیں ہوگا۔ انہوں نے ہفتے کو ملک بھر میں پرامن احتجاج کا بھی اعلان کردیا۔ اڈیالہ جیل کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ کسی کو بھی جعلی مینڈیٹ کے ساتھ حکومت میں آنے کا حق نہیں۔ کہا گیا ہم پیپلزپارٹی، (ن) لیگ اور ایم کیو ایم سے مل کر حکومت بنا رہے ہیں جب کہ بانی پی ٹی آئی نے واضح کہا ہے کہ ان جماعتوں کے ساتھ کسی صورت پاور شیئرنگ نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی بہت جلد اپنی حکومت بنائے گی۔ پی ٹی آئی نے میاں اسلم کو پنجاب میں وزیراعلیٰ پنجاب نامزد کیا۔ دریں اثنا بیرسٹر گوہر نے پہلے سالار خان کا کڑ کی بطور وزیر اعلیٰ بلوچستان نامزدگی کی تصدیق کی تاہم بعد میں ٹویٹ کے ذریعے بتایا کہ مشاورت کرکے فیصلہ کیا جائے گا۔ اسی طرح خیبرپختونخوا میں سپیکر کے لیے عاقب اللہ کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ عمر ایوب کو وزارت عظمی کا امیدوار نامزد کیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی نے عمر ایوب کو وزیراعظم کے عہدے کا امیدوار نامزد کردیا۔ سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ ہم نے پوری مشاورت کی۔ بانی پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی کے مرکزی جنرل سیکرٹری عمر ایوب کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کردیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے مینڈیٹ کو چوری کیا گیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی پورے ملک میں احتجاج کی تاریخ کا اعلان کریں گے۔ عمران خان نے مجھے اسائنمنٹ دیا ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات کروں۔ مولانا فضل الرحمان، اے این پی اور دیگر جماعتوں سے بات کروں گا۔ اس موقع پر بیرسٹر سیف نے بتایا کہ عمران خان نے اسد قیصر کے بھائی عاقب اللہ کو خیبرپی کے اسمبلی کے سپیکر کے لیے امیدوار نامزد کردیا ہے۔ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے امریکا سے پاکستان میں عام انتخابات میں دھاندلی پر سخت مؤقف اپنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اڈیالہ جیل میں عمران خان سے ملاقات کے بعد اسد قیصر کے ہمراہ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے کہا کہ امریکا کو انتخابات پر مزید سخت مؤقف اپنانا چاہئے۔ علاوہ ازیں بیرسٹر سیف نے کہا ہے کہ ہماری جیتی ہوئی سیٹوں کو مسلم لیگ (ن) کی جھولی میں ڈالا گیا۔ نجی ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے بیرسٹر سیف نے کہا کہ کوشش ہوگی اپنی تمام نشستیں قانونی، عدالتی یا احتجاج سے حاصل کریں۔ انہوں نے کہا کہ ایسا کوئی کام نہیں کریں گے جس سے عدم استحکام ہو۔ آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کریں گے۔ ہم پارلیمان اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے احتجاج کرتے رہیں گے۔ ایوان میں عوامی مفاد میں فیصلے ہوں گے تو حمایت کریں گے۔ حلف اس لیے تھا کہ آزاد امیدوار ساتھ رہیں گے۔ بعض عناصر عوام کے مینڈیٹ پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کررہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ امیدوار کی حلف کی خلاف ورزی کا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں۔ ہمارے پاس قانونی کارروائی کا اختیار اس لیے نہیں کہ یہ آزاد منتخب ہوئے ہیں۔ دریں اثناء تحریک انصاف نے پرویز خٹک کی قیادت میں بننے والی پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرینز (پی ٹی آئی) سے رابطے کی تردید کر دی۔ صدر پی ٹی آئی پشاور نے کہا کہ پی ٹی آئی پی سے حکومت سازی کے حوالے سے کوئی بات نہیں ہوئی۔ ارباب شیر علی نے کہا کہ پی ٹی آئی پی سے رابطے کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ اس سے قبل میڈیا رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ پی ٹی آئی نے پاکستان تحریک انصاف پارلیمنٹیرین کے ساتھ خیبر پی کے میں حکومت بنانے کا فیصلہ کر لیا۔ ان رپورٹس میں ذرائع کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا تھا کہ مطابق پاکستان تحریک انصاف اور پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے درمیان مذاکرات بھی ہوئے ہیں۔ پارٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی نے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین کے ساتھ اتحاد کی اجازت دے دی ہے۔ ذرائع کے مطابق جماعت اسلامی کے انکار کے بعد پی ٹی آئی نے پرویز خٹک کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد جنرل (ر) باجوہ کے کہنے پر لائی گئی۔ تحریک عدم اعتماد کے وقت جنرل (ر) باجوہ اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید رابطے میں تھے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میں عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا۔ عدم اعتماد کی تحریک پیپلز پارٹی چلا رہی تھی۔ چاہتا تھا تحریک کے ذریعے اس وقت کی حکومت ہٹائی جائے۔ فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کریں۔ سسٹم میں رہ کر کرنے کا مطلب اسمبلیوں میں رہ کر کرنا ہے۔ میں انکار کرتا تو کہا جاتا عمران کو بچا رہا ہے۔ میں مخالف تھا۔ باجوہ اور فیض نے تمام پارٹیوں کو کہا کہ ایسے کرنا ہے۔ اس پر بعد میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے مہر لگائی۔ انہوں نے کہا کہ دھاندلی 2018ء میں بھی ہوئی اور اب بھی ہوئی ہے۔ اب فائدہ (ن) لیگ کو ہوا۔ فیصلے اب ایوان نہیں میدان میں ہوں گے۔