نئی حکومت کو مضبوط گورننس کے ساتھ صنعتی، زرعی پیداوار بڑھانے کی ضرورت
اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی اور دیگر اتحادی جماعتوں کی ممکنہ مخلوط حکومت آئندہ دو ہفتوں میں اسلام آباد میں کام کرنا شروع کر دے گی اور اسے روز اول ہی سے ملک کو درپیش اہم سیاسی اور معاشی چیلنجز سے نبرد آزما ہونا پڑے گا، ان میں سب سے اہم مہنگائی، ملک کے قرضوں کا خطرناک حد تک بڑھتا ہوا بوجھ، آئی ایم ایف کے ساتھ ساتھ عالمی بینک اور دیگر کثیر القومی مالیاتی اداروں کے ساتھ تعلقات، بے روزگاری، انرجی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، نئے این ایف سی ایوارڑ کا اجراء، نجکاری پروگرام کو آگے بڑھانا، ملک کی کریڈٹ ریٹنگ کی بہتری، شامل ہیں۔ چیلنجز اس سے کہیں زیادہ ہے اور ان میں اگر سیاسی مسائل کو شامل کر لیا جائے تو آنے والی حکومت کہ شب و روز کانٹوں کی سیج ثابت ہو سکتے ہیں، حکومت کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ایک بڑی اپوزیشن کا سامنا کرنا پڑے گا، گزشتہ پی ڈی ایم کے حکومت کو ایک کمزور سی اپوزیشن کا سامنا تھا، مگر اس بار اپوزیشن بڑی تگڑی ہوگی،اکثریت کے باوجود حکومتی ارکان کو قومی اسمبلی اور سینٹ اجلاسوں میں اپنی حاضری کو یقینی رکھنا پڑے گا، اپوزیشن کے ارکان کی بھاری تعداد کے پیش نظر قومی اسمبلی کی کمیٹیوں کی ایک بڑی تعداد کی سربراہی بھی اپوزیشن ارکان کے پاس چلی جائے گی۔افراط زر کی ماہانہ شرح 28 سے 29 فیصد کے درمیان چل رہی ہے، اس کی سب سے بڑی وجہ انرجی کی لاگت میں تسلسل سے اضافہ ہے، گیس قیمتوں میں تیسری بار بڑا اضافہ ہوا، بجلی کے نرخ بھی بڑھنے والے ہیں، جس کی وجہ سے مہنگائی اور بڑھے گی۔ حکومت کے لیے قیمتوں پر قابو میں لانا چیلنج ہوگا۔ مہنگائی کے عنصرمیں بہت بڑا حصہ ناجائز منافع خوری، کمزور نیشنل پرائس کمیٹی اور انتظامی اقدامات بے اثر ہونا بھی ہے۔ اس حوالے سے کریک ڈاؤن کرنا ہوگا، نئی حکومت کے لیے ائی ایم ایف کے ساتھ ڈیل بھی ایک چیلنج ہوگی، حکومت کو فوری طور پر یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ اس نے آئی ایم ایف کیساتھ نیا پروگرام لینا ہے یا نہیں لینا ہے، شواہد ہیں ادائیگی کے توازن کے لئے نئے نیا پروگرام لینا پڑے گا۔آئی ایم ایف شرائط کو سامنے رکھا جائے تو آئندہ حکومت کے پاس عوام کو ریلیف دینے کے لیے کوئی خاص جگہ نہیں بچتی ہے،مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی نے عوام کو مفت بجلی دینے کا وعدے کر رکھے ہیں، تو وعدے کو کس طرح سے اپنے پروگرام میں سموے گی یہ ایک بہت بڑا سوال ہے۔ نجکاری پروگرام ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگا، پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ کافی آگے بڑھ چکا ہے، اس کے علاوہ درجنوں ادارے نجکاری پروگرام کی لسٹ پر موجود ہیں، حکومت میں شامل مختلف جماعتوں کی نجکاری کے حوالے سے اپروچ میں یکسانیت پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج ثابت ہوگی۔حکومت کو نئے این ایف سی کمیشن کی تشکیل کرنا پڑے گی، چھ ماہ کے اندر نیا ایواڑ دینا ہوگا۔ ملک کے اندر سرمایہ کاری اور خاص طور پر پرائیویٹ سرمایہ کاری کو یقینی اور سازگار بنانے کے لیے کام کرنا پڑے گا، حکومت کو یہ فیصلہ لینا ہوگا کہ ایس آئی ایف سی بالاتر فورم کے طور پر جاری رکھنا ہے یا نہیں۔ علاقائی تجارت کو فروغ دینے کی بات کی گئی ہے۔ ملک کی گروتھ میں اضافہ بھی ایک بڑا چیلنج ثابت ہو سکتا ہے، رواں مالی سال میں پاکستان کی شرح ترقی دو سے ڈھائی فیصد کے درمیان رہے گی، غربت کی بلند ترین شرح کی وجہ سے گروتھ ریٹ کو تیزی سے چار اور چھ فیصد کے درمیان لانے کی کوشش کرنا ہوگی، تاکہ روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔ ملک کا قانون کہتا ہے کہ پاکستان کے ذمہ قرضے کی حد زیادہ سے زیادہ جی ڈی پی کے 60 فیصد کے مساوی ہونا چاہیے، اس وقت یہ 77 فیصد کے قریب ہے، اتحادی حکومت کیلئے ناگزیر ہے کہ پاکستان کو اس وقت مضبوط گورنس، مالی اور مالیاتی نظم و ضبط، کفایت شعاری، ملک کے ریونیو کو بڑھانے، نئے تجارتی روٹس کو کھول لیں، صنعتی اور زرعی پیداوار کو بڑھانے، اور ملک کی نوجوان آبادی کو روزگار دینے کی اشد ضرورت ہے۔