مولانا فضل الرحمان کی پلٹا کھاتی سیا ست
جمعیت علماء اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے انتخابی نتائج کو مسترد کرتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف کو اپوزیشن میں بیٹھنے کی دعوت دی ہے اور مبینہ دھاندلیوں کیخلاف ملک گیر تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ بدھ کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ نہ ہم حکومت کا حصہ بنیں گے اور نہ ہی وزارت عظمیٰ کیلئے میاں شہبازشریف کو ووٹ دینگے۔ ہم پارلیمنٹ میں اپنی الگ حیثیت کے ساتھ جائیں گے اور کسی پارٹی سے کوئی اتحاد نہیں کرینگے۔ انکے بقول الیکشن کمیشن شفاف انتخابات کرانے میں ناکام ہو گیا ہے۔ موجودہ انتخابات نے 2018ء کی دھاندلیوں کے ریکارڈ بھی توڑ دیئے ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ الیکشن کمیشن اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا ہے اور پارلیمنٹ اپنی اہمیت کھو بیٹھی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ اب فیصلے ایوان میں نہیں‘ میدان میں ہونگے۔ انہوں نے کہا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ سمجھتی ہے کہ انتخابات شفاف ہوئے ہیں تو پھر 9 مئی کا بیانیہ دفن ہو گیا ہے اور قوم کے غداروں کو مینڈیٹ دے دیا گیا ہے۔ انکے بقول اگر اسٹیبلشمنٹ سیاست کریگی تو ہم بھی سیاست سے جواب دیں گے‘ ہماری بات کسی نے نہیں مانی‘ اب ہم بھی کسی کی بات نہیں مانیں گے‘ کارکن تیار رہیں‘ ہم دھاندلی کیخلاف ملک گیر تحریک چلائیں گے۔
مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ہمارا جھگڑا جسموں کا نہیں‘ ذہنوں کا ہے اور یہ بھی جلد ختم ہو جائیگا۔ ہم مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے تابعدار نہیں ہیں۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ جمعیت علماء اسلام کو جان بوجھ کر شکست سے دوچار کیا گیا ہے۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مولانا فضل الرحمان نے یہ پریس کانفرنس اس وقت کی جب ووٹوں کی دوبارہ گنتی میں جمعیت علماء اسلام (ف) قومی اسمبلی کی مزید دو نشستوں پر کامیاب ہو چکی تھی۔ ان میں این اے 261 اور این اے 251 کے حلقے شامل ہیں جہاں جے یو آئی کے مولانا عبدالغفور حیدری اور مولوی سید سمیع اللہ کامیاب قرار پائے ہیں۔ اس طرح جمعیت علماء اسلام (ف) قومی اسمبلی میں مجموعی 6 نشستیں حاصل کر چکی ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ کی ہدایات کی روشنی میں عام انتخابات کیلئے آٹھ فروری 2024ء کی تاریخ متعین ہونے کے بعد الیکشن کمیشن نے آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات پر ہی اپنی توجہ مرکوز کی جس کیلئے حکومت اور متعلقہ ریاستی اداروں کو ضروری ہدایات جاری کی گئیں۔ حکومت نے الیکشن کمیشن کو مطلوبہ فنڈز اور انتخابی عملہ فراہم کیا جبکہ افواج پاکستان نے انتخابی مہم اور پولنگ کے دوران امن و امان کو یقینی بنانے کیلئے الیکشن کمیشن کی معاونت کا بیڑا اٹھایا۔ اس سلسلہ میں ملک بھر کے پولنگ سٹیشنوں پر چھ لاکھ سے زائد سکیورٹی اہلکار تعینات کئے گئے جنہوں نے پولنگ سٹیشنوں کے باہر صرف امن و امان کے قیام کی ذمہ داریاں ادا کیں اور پولنگ اور ووٹوں کی گنتی میں کسی قسم کی مداخلت نہیں کی۔ اس طرح ملک میں 8 فروری کے انتخابات جوش و خروش کے ساتھ پرامن ماحول میں منعقد ہوئے اور کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے پولنگ کے عمل پر کوئی سوال نہیں اٹھایا گیا تاہم پولنگ کے بعد گنتی کے عمل میں غیرضروری تاخیر ہوئی جس کا جواز الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی جانب سے ملک بھر میں امن و امان کی خاطر انٹرنیٹ سروس معطل رکھنے کا پیش کیا گیا۔ الیکشن کمیشن کے بقول انٹرنیٹ سروس معطل ہونے سے الیکٹرانک مینجمنٹ سسٹم (ای ایم ایس) کام نہ کر سکا چنانچہ آراوز کی جانب سے الیکشن کمیشن کو نتائج موصول ہونے میں تاخیر ہوتی رہی۔ اس پر یقیناً دوسری جماعتوں کی جانب سے بھی تحفظات کا اظہار سامنے آیا اور اسی بنیاد پر پی ٹی آئی کو انتخابی دھاندلیوں کے الزامات میں شدت لانے کا موقع ملا۔ ایسے الزامات پر مبنی انتخابی عذر داریوں اور آئینی درخواستوں کی مجاز عدالتی فورمز پر سماعت بھی جاری ہے اور الیکشن ٹربیونلز کی جانب سے متعدد انتخابی حلقوں کے نتائج میں رد و بدل بھی ہوا ہے۔ یہ تمام معاملات انتخابی عمل کا ہی حصہ ہیں اور ہر انتخابات کے موقع پر سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی جانب سے اجتماعی اور انفرادی الزامات لگتے ہی رہتے ہیں جو ہمارے سیاسی انتخابی کلچر کا حصہ ہے کیونکہ ہماری سیاست میں شکست تسلیم کرنے کا کلچر پنپ ہی نہیں پایا۔ 2014ء کے انتخابات کی بنیاد پر پی ٹی آئی کی قیادت نے اس کلچر میں حکومت اور اداروں کے خلاف اودھم مچانے والا عنصر بھی شامل کرلیا جس کے تحت لانگ مارچ اور طویل دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوا جبکہ سسٹم کی بقاء اور استحکام کی خاطر پارلیمنٹ میں موجود جماعتوں مسلم لیگ (ن)‘ پیپلزپارٹی‘ جمعیت علماء اسلام (ف) اور قوم پرست جماعتوں نے اودھم مچانے والی سیاست کی مزاحمت کی البتہ مولانا فضل الرحمان نے 2018ء کے انتخابات کے نتائج پر لانگ مارچ اور دھرنے پر مبنی احتجاجی تحریک کا آغاز کیا مگر اس تحریک میں کبھی یہ اعلان نہیں کیا گیا کہ ہم سسٹم کو چلنے نہیں دینگے۔ ایسی سیاست عمران خان کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کے بعد پی ٹی آئی کا خاصہ بن گئی جس کے دوران بطور خاص افواج پاکستان‘ عدلیہ اور الیکشن کمیشن کی قیادتوں کو ہدف بنا کر اودھم مچایا جاتا رہا اور پھر اسی سیاست کی بنیاد پر 9 مئی 2023ء کا سانحہ ہوا جس میں پی ٹی آئی کی جانب سے افواج پاکستان کے اداروں کی عمارات‘ قومی ہیروز کی یادگاروں اور مجسموں تک کو توڑا پھوڑا اور نذرآتش کیا گیا جبکہ مولانا فضل الرحمان اس انداز سیاست کی بڑھ چڑھ کر مخالفت کرتے رہے۔
بے شک اسمبلیوں کی قبل ازوقت تحلیل اور انکے آئینی تقاضوں کے مطابق انتخابات سے گریز کا معاملہ ہماری سیاست میں بے چینی کا باعث بنا ہے تاہم 2018ء کی قومی اسمبلی کی تحلیل کے بعد اسکے بروقت انتخاب پر تقریباً تمام سیاسی جماعتوں کا اتفاق رہا ہے مگر جب انتخابات کیلئے آٹھ فروری کی تاریخ کا تعین ہو گیا تو ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت ان انتخابات کو موخر کرانے کے تقاضے شروع ہو گئے جن میں مولانا فضل الرحمان پیش پیش رہے۔ اس کیلئے جواز موسم کی خنکی اور بلوچستان‘ کے پی کے میں ہونیوالی دہشت گردی کی وارداتوں کا بنایا گیا۔ اسی جواز پر بعدازاں سینٹ میں آزاد گروپ کی جانب سے انتخابات ملتوی کرانے کی قراردادیں بھی پیش ہوئیں جسے مولانا فضل الرحمان اپنے موقف کی صداقت سے تعبیر کرتے رہے۔ اسکے باوجود ملک میں شیڈول کے مطابق 8 فروری کے انتخابات کا انعقاد ہو گیا جو بہرحال جمہوریت کے تسلسل و استحکام کی ضمانت ہے مگر سسٹم کو مستحکم ہوتا دیکھنے اور اس کیلئے مثبت کردار ادا کرنے کے بجائے مولانا فضل الرحمان نے حیران کن طور پر سیاست میں اودھم مچانے والا وہی راستہ اختیار کرلیا ہے جس پر پی ٹی آئی پہلے ہی کاربند ہے جبکہ مولانا فضل الرحمان نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ عندیہ بھی دیا ہے کہ ان کا پی ٹی آئی کے ساتھ ذہنی اختلاف آگے چل کر ختم بھی ہو سکتا ہے۔ گویا وہ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر ملک اور سسٹم کی بنیادیں ہلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس سے بادی النظر میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کے وجود کو قبول نہ کرنے کی اپنے آباو اجداد کی پالیسی کو عملی جامہ پہنانے کا راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں جس کے تحت جمعیت علماء ہند کے سربراہ کی جانب سے یہ کہہ کر تشکّر کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہم پاکستان بنانے کے گناہ میں شریک نہیں ہوئے۔
اس وقت جبکہ وفاق اور صوبوں میں قومی سیاسی قیادتوں کے اتفاق رائے کے ساتھ حکومتیں تشکیل پانے کے مراحل پایہ تکمیل کو پہنچنے والے ہیں‘ مولانا فضل الرحمان کی جانب سے قومی مفاہمت میں شریک نہ ہونے اور انتخابی نتائج کو قبول نہ کرنے کا اعلان ملکی اور قومی مفادات اور ملکی سلامتی کے تقاضوں سے ہرگز مطابقت نہیں رکھتا۔ انہیں اپنے اس طرز سیاست پر ٹھنڈے دل سے غور کرکے اس سے رجوع کرنا اور سسٹم کو مضبوط بنانے والی سیاست کے ساتھ چلنا چاہیے۔ لمحوں کی خطا کو ملک و ملت کیلئے صدیوں کی سزا بنانا تو کوئی دانشمندی نہیں۔