• news

الیکشن،گوجرانوالہ کے مسائل اور میڈیا کا کردار

گوجرانوالہ کو کبھی نون لیگ کا گڑھ ماناجاتا تھا ۔ پچھلے کئی انتخابات میں لوگ مسلم لیگ نون کے نامزد نمائندوں کو ہی ووٹ دے رہے تھے  لیکن موجودہ الیکشن میں آزاد اُمیدواربازی لے گئے ۔سوشل میڈیا اور عوامی بیٹھکوں میں تجزیہ ہورہا ہے کہ لوگوں کو اکثریت کو سابق ادوار میں مسلم لیگ نون کے ٹکٹ پر منتخب نمائندوں سے بہت سی شکایات تھیں۔ چند دن پہلے گفٹ یونیورسٹی کے میڈیا اور شعبہ ابلاغیات کے زیر اہتمام الیکشن، گوجرانوالہ کے مسائل اور میڈیا کے کردارپر ایک مکالمہ کروایا گیا۔ مکالمے میں شہر کے نامور صحافیوں جن میں اقبال مرزا،سردار ذیشان ،احتشام شامی، محمد شفیق، سجاد سردار وڑائچ‘ عتیق انور راجہ کالم نویس نوائے وقت، سجاد سردار وڑائچ، طاہر ملک، ڈپٹی ڈائریکٹر اکیڈمک عائشہ انور، لیکچرار مدیحہ اقبال مرزا، مس کرن ساجد، آغا سہیل اور مختلف ڈیپارمنٹس سے طلبا و طالبات کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ ایک بات پر سب متفق تھے کہ شہر سے منتخب ہونے والوں نے بنیادی سہولتوں فراہم کرنے میں اپنا کرداد ادا نہیں کیا۔ پہلے سیشن میں مقامی مسائل پرمنتخب نمائندوں کی عدم دلچسپی کے حوالے سے گفتگو ہوئی اور بیاں کیا گیا کہ ناروال، سیالکوٹ، گجرات میں کئی سال پہلے سے یونیورسٹیاں بن چکی ہیں لیکن ڈویژنل ہیڈکوارٹر گوجرانوالہ ابھی تک ایک جامعہ کی سہولت سے محروم ہے۔
یہاں سے منتخب ہونے والوں نے کبھی بھی اسمبلی فلور پر عوامی جذبات و احساسات کی نمائندگی کرنے کی کوشش نہیں کی۔حد تو یہ ہے کہ گوجرانوالہ سے منتخب ہونے والے پانچ پانچ سال اسمبلی میں رہتے ہیں ،مراعات حاصل کرتے ہیں ۔ٹھیکے لیتے ہیں لیکن اسمبلی کے کسی سیشن میں دو لفظ نہیں بول پاتے۔ضلع کی آبادی میں کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے لیکن کوئی نیا ہسپتال شہر میں نہیں بنوایا گیا۔ ملتان،راولپنڈی سے آبادی میں بڑا شہر ہونے اور صنعت میں اہم مقام رکھنے کے باوجود گوجرانوالہ شہر کو جدید میٹرو سسٹم تو ایک طرف عام پبلک ٹرانسپورٹ تک سے محروم رکھا ہوا ہے ۔کھیلوں کے نئے میدا ن نہیں بنائے گئے۔ صاف پانی کے لیے منصوبہ بندی نہیں کی گئی۔شہر سے آلودگی کے خاتمے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔ 
پنجاب کے باقی شہروں سے بھینسوں کو شہری حدود سے باہر نکالا جاچکا ہے لیکن  انتظامیہ کے کئی بار کوشش کرنے کے باوجود سیاسی مداخلت کی وجہ سے بھینسوں کے باڑے بڑی تعداد میں شہر میں موجود ہیں۔جن کے فضلے سے شہر کی فضائیں ہر وقت آلودہ رہتی ہیں اور برسات میں نالیاں بند ہوجاتی ہیں۔ شہر کے بیچ سے گزرنے والی نہر کی صفائی اور اس کے ساتھ پھل دار،پھل دار درخت لگانے کی کوشش نہیں کی جارہی۔آئی ٹی اور آن لائن شعبوں کی ترقی نمائندوں کی ترجیعات میں نہیں ہے۔ نوجوانوں کے لیے ہنر سیکھنے کے مواقع پیدا نہیں کئے جا رہے۔ لوگوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ منتخب نمائندوں نے ذاتی مفادات کے پیش نظر  شہر کے مرکز میں ٹریفک نظام کی روانی کے لیے بنے فلائی اوور فاصلہ کم کروادیا تھا۔مکالمے کے دوسرے سیشن میںطالب علموں کو سوال کرنے کے لیے کہا گیا تو انہوں نے بہت دلچسپ،سخت اور تیکھے سوال کیے۔ ہر کوئی نہ صرف سوال پوچھ رہا تھا بلکہ علم کے چاہنے والے شہری مسائل کی نشاندہی کررہے تھے اور انہیں حل کرنے کے حوالے سے لائحہ عمل اپنانے کے لیے جواب طلب کررہے تھے۔ 
میرے خیال میں جس سوسائٹی کے نوجوان دلیل سے سوال کرنا سیکھ جائیں۔ جس سوسائٹی کے نوجوانوں کو یہ پتہ چل جائے کہ ان کے مسائل کس نے حل کرنے ہیں تو وہاں مسائل حل ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ راقم نے کہا کہ جنہوں نے مسائل حل کرنے ہیں لوگوں کو خاص طور پریوتھ کو وہاں جانا چاہیے اپنی بات انکے سامنے رکھنی چاہیے وہ چاہے ڈی سی ، کمشنر ہو یا اس ضلع سے منتخب ہونے والے ممبر قومی اور صوبائی اسمبلی ہوں جب تک ہم اپنے مطالبات ان کے پاس نہیں لے کے جائیں گے جب تک ہم اپنا درد ان کے سامنے بیان نہیں کریں گے تب تک بہتری کی کوئی صورت نکلنی مشکل ہے۔
 ایک سینئر صحافی نے بڑا اہم نقطہ اُٹھایا کہ جب سیاسی جلسوں کے لیے مرکزی سیاسی قیادت اور حکومتی وزیر مشیر گوجرانوالہ آتے ہیں۔تو مقامی قیادت اور انتظامیہ پہلوانوں کو ان کے سامنے لا کھڑا کرتی ہے۔یہاں اہم نقطہ اُٹھایاگیا کہ گوجرانوالہ کیا صرف پہلوانوں کا ہی شہر ہے ۔ اس شہر میں اور بھی بہت کچھ ہے ۔ بہت سے نامور شاعر،ادیب،کالم نگار،ٹی وی تجزیہ نگار،انڈسٹریلسٹ،سکالر اور سماج سیوک ہیں ۔تو پھر سیاسی قائدین باشعورلوگوں کو سامنے لے کے کیوں نہیںآتے ۔ پہلوانوں سے کسی کو کوئی دشمنی نہیں ہے وہ بے شک شہر کی شان ہیں لیکن دو چار ناموں کے علاوہ کوئی بھی ملکی سطح پر نمایاں کارکردگی نہیں دکھا رہا ہے ۔تو ضرورت ہے کہ شہر کی پہچان کراتے وقت اہل علم و ہنر کو بھی ذہن میں رکھا جائے۔اب وقت ہے کہ مقامی سیاسی راہنما عوامی رابطہ مہم شروع کریں اور ماضی کی کوتاہیوں کا ازالہ کرنے کا عہد کریں۔ 
موجودہ انتخابات میں گوجرانوالہ سے پیپلز پارٹی کا صرف ایک امیدوار 10 ہزار سے زائد ووٹ لے سکا ہے باقی کسی کے ووٹ  500 تھے ،کسی کے 400 تو کسی کے حصے صرف 200 ووٹ آئے۔ انتخابات کے بعد وفاق میں حکومت سازی کیلئے سادہ اکثریت کسی  سیاسی جماعت کے پاس نہیں ہے ۔انتخابی نتائج ،الیکشن کمیشن کے طرز عمل اور  دیگر کئی وجوہات کے پیش نظر ملک میں بحران کی سی صورتحال ہے ۔ایک طرف آئی ایم ایف کے دباو پر پٹرول،ڈیزل،گیس اور بجلی کے نرخوں میں بہت زیادہ اضافہ ہو رہا ہے ،ہر چیز کے نرخ بڑھنے سے عوام پریشان ہیں تو دوسری طرف سیاستدانوں میں اقتدار کی ہوس اور آپسی نفرت عروج پر ہے۔وقت کا تقاضہ ہے کہ سیاست دان ملک کے وسیع تر مفاد کے پیش نظرسیاسی تناؤ اور باہمی تلخیاں کم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ایک مخصوص مدت کے لیے قومی حکومت تشکیل دینے کی کوشش کریں ۔پارلیمنٹ میں انتخابی نظام کی خرابیوں،کمیوں،کوتاہیوں اور لاپروائیوں کے خاتمے کے لیے قانون سازی کریں اورصحافیوں کو چاہیے کہ وہ سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کرنے کی بجائے مسائل کی نشاندہی کے لیے کام کریں۔
٭…٭…٭

ای پیپر-دی نیشن