• news

اسلام آباد کا پلاسٹک فری بنانے کا آغازہو گیا

رانا فرحان اسلم
ranafarhan.reporter@gmail.com
اسلام آباد کو پلاسٹک فری بنانے کیلئے اقدامات میں تیزی آ گئی ہے ہر ہفتے باقاعدگی سے اس ضمن میں کاروائیاں بھی دیکھنے میں آ رہی ہیں اسلام آباد کی طرح ملک بھر میںپلاسٹک کے خاتمے کیلئے اسی طرح کے اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے اسلام آباد میںپاکستان  انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے) کی جانب سے پلاسٹک کے خاتمے اور اسکے مضر اثرات بچاؤ کیلئے باقاعدہ مہم جاری ہے جس میںای پی اے کے تمام افسران اور اہلکار سرگرم عمل ہیںماحول پر پلاسٹک کے مضراثرات کے حوالے سے مختلف تحقیقی رپورٹس وقتا فوقتا جاری ہوتی رہتی ہیںاس حوالے سے عالمی ادارہ برائے صحت (ڈبلیو ایچ او)اور دیگر  تنظیموں کی جانب سے تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ زمین کی ایسی کوئی جگہ نہیں  جہاں پلاسٹک ذرات موجود نہ ہوں سمندر کی گہرائی سے لے کر ساحل سمندر کی ریت، پانی کی بوتل سے لے کر ڈسپوزایبل کھانے کے پیکٹس اور راستوں پر پلاسٹک یا اس کے ذرات موجود ہوتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت نے مائیکروپلاسٹک کی حوالے سے جاری رپورٹ میں بتایا ہے کہ ہوا پینے کے پانی اور غذائی اشیا ء  میں پلاسٹک کے ذرات کی موجودگی سے مسائل بڑھ رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج کل پاکستان سمیت دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کی روک تھام کے لئے بہت سے اقدامات کئے جارہے ہیں اور اسلام آباد میں پلاسٹک کی تھیلیوں کے استعمال پر پابندی عائد کی گئی ہے جبکہ سندھ اور دیگر مقامات پر بھی اس طرح کی پابندی کا نفاذ جلد ہوگالیکن اب دیکھنا یہ ہے حکومتی اقدامات سے ہٹ کرعوام جو تقریبا 70سال سے اپنی روز مرہ ضروریات سے لے کر باقی چیزوں میں پلاسٹک کا بے دریغ استعمال کررہے ہیںاس حکومتی فیصلے پر کس حد تک عمل درآمد کرتے ہیںمگر اس سب سے پہلے یہاں یہ جاننا ضروری ہے کہ دنیا بھر میں پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرنے پر زور کیوں دیا جا رہا ہے۔
 پلاسٹک ایک پولیمر ہے سائنسی اصطلاح میں پولیمرایک جیسے ایٹموں کی زنجیر کو کہتے ہیںیہ پولیمیرز زیادہ تر کاربن اور ہائیڈروجن کے ایٹموں سے بنے ہوتے ہیںجبکہ چند پولیمرز آکسیجن، نائٹروجن، سلفر، کلورین، فلورین، فاسفورس اور سلیکون سے بنتے ہیںپولیمر میں موجود یہ ایٹم آپس میں بہت زیادہ مضبوطی سے جڑے ہوتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پلاسٹک 500سے ایک ہزار سال تک ختم نہیں ہوتاپلاسٹک کی اسی مضبوطی اور عرصہ دراز نہ ختم ہونے کی صلاحیت نے ہمیں اس کے استعمال کی طرف راغب کیاہماری روز مرہ کی زندگی میں پلاسٹک کا استعمال اس قدر زیادہ ہوچکا ہے کہ اس کے استعمال کی بغیر زندگی مشکل محسوس ہوتی ہے اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو پلاسٹک کی بہت سی مصنوعات ملیں گی ۔
اسلام آباد میں فاضل پلاسٹک کا ماحول پر منفی اثر بڑھتا جا رہا ہے ۔جس سے بچاؤ کیلئے گرین مشن کا آغاز ہوگیا ہے۔ پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے )نے پلاسٹک کے استعمال سے مختلف قسم کی اشیاء  بنانے کا کامیاب تجربہ کیا ہے ۔گرین مشن پر میڈیا بریفنگ میں پاکستان انوائرمینٹل پروٹیکشن ایجنسی (ای پی اے )فرزانہ الطاف شاہ نے کہا کہ پلاسٹک کے استعمال سے ایسی چیزبنائیں جائیںجو ماحول دوست ہودنیا کے ممالک اس وقت پلاسٹک کو ترک کرتے جا رہے ہیں ہم گرین بنچز پروگرام لا رہے ہیںاسلام آباد کو زیرو پلاسٹک پر لے کر جائیں گے ہمارا انیشیٹیو زیرو بجٹ پر ہے یہ نان پولیٹیکل ایجنڈا ہے سیاسی طور پر ماحولیات کے معاملے پر کسی پارٹی کا کوئی اختلاف نہیں ہوتے فرزانہ الطاف شاہ نے کہا کہ گرین بنچ کا کانسپٹ ہمارے کورس میں بھی ہے پلاسٹک کو کنورٹ کر کے ایسی چیز لائیں جو ماحول دوست ہولیونگ انڈس ریور کی بات کر رہے ہیں وہاں سے پلاسٹک اکٹھا ہو رہا ہے اس کو کنورٹ کیا جائے اسلام آباد کی تمام یونیورسٹیوں تمام تعلیمی اداروں کو پلاسٹک فری بنائیں گے تعلیمی اداروں ہسپتالوں اور پارلیمنٹ میں گرین بنچز لگائیں گے ان گرین بنچز کو پلاسٹک میٹریل سے بنایا جائے گا پلاسٹک کو ری سائیکل کریں گے کیونکہ پلاسٹک جلانے سے بھی آلودگی میں اضافہ ہوتا ہے کتنا اچھا ہوتا اگر الیکشن مہم میں بھی پلاسٹک فری معاشرے کی بات کی جاتی پارٹی پرچموں پر ایک تحریر ماحول سے متعلق بھی لکھوائی جاتی ہمیں صرف رویے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے ہمیں اپنے ریسورسز کو بچانے کے لیے کچھ نہ کچھ اقدامات کرنے ہونگے ہوٹلوں کو وارننگ جاری کی ہے پلاسٹک کے گلاس پلیٹیں بوتلیں ان کو ختم کر رہے ہیں اگلے دو ماہ میں پلاسٹک کے مینو فیکچرر اور امپورٹر پر دو ملین جرمانہ ہوگاجہاں سے اسلام آباد میں پلاسٹک آ رہا ہے اس پر بھی آپریشن کریں گے انٹری پوائنٹس پر ہی چیکنگ کریں گے ابھی کیمپیئن چلائیں گے پلاسٹک دو ریوارڈ لوتمام پلاسٹک کو پراڈکٹ میں کنورٹ کریں گے مختلف پلاسٹک جو چمچ پلیٹیں استعمال کر رہے ہیں دیکھیں گے کہ کس گریڈ کا پلاسٹک استعمال کیا جا رہا ہے یہ وہ کیمپیئن ہے جس سے لوگوں کا ہیلتھ بجٹ کم ہوگا۔موسمیات وماحولیاتی تبدیلیوں پر کام کرنیوالی موٹیویشنل اسپیکر پروفیسر رومانہ گل کاکڑ نے  نوائے وقت کیساتھ گفتگو میں کہا کہ پلاسٹک کے مضراثرات سے محفوظ رہنے کیلئے ہمیں عوام آگاہی مہم کا آغاز کرنا ہوگا سکولز کالجز اور جامعات کی سطح پر اسکی آگاہی فراہم کرنا ہوگی تا کہ ہماری آنیوالی نسلیں نقصانات سے محفوظ رہ سکیںترقی یافتہ ممالک کے ماڈل کو سمجھتے ہوئے ہمیں بھی کچرے اور پلاسٹک فضلے کو کارآمد بنانے کیلئے کام کرنا ہوگا سب سے پہلے ہمیں پلاسٹک کے استعمال کو ترک کرنا ہوگااور اگر استعمال کریں بھی تو اسکو ٹھکانے لگانے کیلئے ہمیں باقائدہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جو پلاسٹک ہم استعمال کرتے ہیں وہ ہمارے ماحول پانی مٹی ہر چیز کو بری طرح متاثر کرہا ہے سدباب کیلئے  ہر شہری کو اپنا ذمہ دارانہ کرداراداکرنا ہوگا۔ گھروں میں پلاسٹک کی مصنوعات کی بجائے چینی یا شیشے کے برتنوں کو ترجیح دیںپلاسٹک کے شاپروں کی بجانے متبادل چیزوں کا استعمال شروع کریںہمیں ملک پاکستان باقی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا کرنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا ہوگا کیونکہ مشہور مقولہ ہے کہ قطرہ قطرہ دریا بنتا ہے لہذا ماحول اور ملک دونوں کی بہتری کے لئے ہر فرد کا کردار اہم ہے۔

ای پیپر-دی نیشن