ایک جماعت کو ہدف بنایا گیا: پی ٹی آئی، خیبر پی کے میںانتخابات امام کعبہ نے کرائے؟ ن لیگ
اسلام آباد (خبر نگار) ایوان بالا میں اراکین نے عام انتخابات کی دھاندلی پر چیف الیکشن کمشنر کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا ہے۔ اراکین نے انتخابات پر خرچ ہونے والے 50ارب روپے دھاندلی کے ذمہ دار عناصر سے واپس لینے اور الیکشن کمیشن کو دھاندلی زدہ الیکشن پر عوام سے معافی مانگنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ سینٹ اجلاس کے دوران سینیٹر طاہر بزنجو نے عام انتخابات کے حوالے سے بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ ڈیل سے حکومتیں بنتی اور ٹوٹتی رہی ہیں اور اس ڈیل کے نتیجے میں سیاسی قوتوں اور سیاسی اکابرین کو اقتدار تو ضرور ملا مگر اختیار کبھی بھی نہیں ملا ہے۔ اس طرح یہ کمزور جمہوریت مزید کمزور ہوتی گئی اور اب یہ بستر مرگ تک پہنچ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ تنقید اور اختلاف کی گنجائش سکڑتی جارہی ہے اور تاریخ پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ کچھ سیکھو، لیکن کوئی بھی سننے کیلئے تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک کے بڑے بڑے اور محترم لیڈر مانیں یا نہ مانیں لیکن یہ حیقیقت ہے کہ وہ اپنی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ نگرانوں کی نگرانی میں جتنے بھی انتخابات ہوئے ہیں وہ متنازعہ رہے ہیں لیکن اب کی بار جو انتخابات ہوئے ہیں وہ متنازعہ ترین تھے۔ انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں چن چن کر حقیقی عوامی نمائندوں کو ہروایا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر کو گرفتار کرکے اس کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ چلایا جائے۔ انہوں نے چیئرمین سینٹ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹر اعجاز چوہدری کا پروڈکشن آرڈر جاری کریں جو اس کا آئینی اور قانونی حق ہے۔ سینیٹر علی ظفر نے کہاکہ الیکشن میں جو دھاندلی ہوئی ہے اس نے ملک کی بنیادیں ہلا دی ہیں اور ہمارا فرض ہے کہ ہم اس کو ٹھیک کریں۔ انہوں نے کہاکہ عوام نے پری پول اور پوسٹ پول دھاندلی کے باوجود اپنا فیصلہ دیدیا ہے اور یہ فیصلہ امید اور جمہوریت کے حق میں دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کے سامنے بڑی مشکلات تھی مگر نوجوان ایک انقلاب لے آئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ انتخابات میں کیا ہو رہا تھا یہ سب کو پتہ ہے۔ ایک جماعت کو ٹارگٹ کیا گیا اور عوام کو ہراساں کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے لیڈروں کو گرفتار کیا گیا اور ایک بھی جلسہ نہیں کرنے دیا۔ انہوں نے کہاکہ پہلے پری پول دھاندلی ہوئی اور اس کے بعد رات کے اندھیرے میں پوسٹ پول دھاندلی کرکے ہارنے والے امیدواروں کو جتوا دیا گیا۔ یہ جمہوریت کے ساتھ ظلم ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں آگے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ تاہم جب بھی عوام کا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے تو ملک میں انارکی بڑھی ہے اور مجھے خوف ہے کہ اگر یہ مینڈیٹ واپس نہ کیا گیا تو پھر کسی کے ہاتھ میں بھی کچھ نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسی حکومت بن گئی جس کے پاس عوام کا مینڈیٹ نہ ہو تو وہ حکومت عوام کے مسائل حل نہیں کرسکے گی۔ عوام کو درپیش مسائل وہ لیڈرشپ حل کر سکتی ہے جن کے پیچھے عوام ہو اور اس کے بغیر حالات حل نہیں ہوسکتے۔ عوام نے جس کو مینڈیٹ دیا ہے اس کو حکومت چلانے دیں۔ اگر یہ اعتماد نہ کیا گیا تو ملک کے حالات درست نہیں ہوسکیں گے۔ انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے قرارداد منظور کرکے الیکشن کمیشن کو بلائیں۔ سینیٹر مشتاق احمد خان نے کہاکہ 8فروری کا الیکشن بدترین دھاندلی زدہ الیکشن تھا۔ یہ ایک جعلی الیکشن تھا اور اس کے نتیجے میں جو بھی حکومت بنے گی وہ جعلی ہوگی۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن دستوری ذمہ داری پوری نہ کرنے پر عوام سے معافی مانگیں اور چیف الیکشن کمشنر مستعفی ہو۔ اس کے خلاف آئین کے آرٹیکل 6کے تحت کارروائی کی جائے اور انتخابات پر خرچ ہونے والے 50ارب روپے ان افراد سے واپس لئے جائیں جنہوں نے دھاندلی کی ہے۔ انہوں نے کہاکہ عوام کے حق حکمرانی پر ڈاکہ ڈالنے میں چار طبقے ملوث ہیں اس میں عدلیہ، الیکشن کمشن، نگران حکومت اور اسٹیبلشمنٹ شامل ہیں۔ کراچی کے انتخابات سب کے سامنے ہیں۔ جماعت اسلامی کراچی کے امیر کو اس حلقے سے جتوایا گیا جہاں سے وہ کامیاب بھی نہیں ہوئے تھے۔ بلوچستان سے ڈرگ مافیا باپ اور بیٹا اور افغانستان سے افغانی اس ایوان میں آئے ہیں۔ اسی لئے پورے ملک سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ دھاندلی کرنے والے قومی مجرم اور قوم کے غدار ہیں ان کی وجہ سے معاشرے میں انتشار بڑھ رہا ہے۔انتخابات کا مقصد بحرانوں کو ختم کرنا ہے مگر اس الیکشن کمیشن نے قوم کو معاشی اور سیاسی بحران سے دوچار کردیا ہے۔ انہوں نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ الیکشن کمیشن فوری طورپر معافی مانگے اور چیف الیکشن کمشنر فوری طور پر مستعفی ہوں اور ایک بااختیار جوڈیشیل کمیشن قائم کرکے تمام انتخابات کے عمل کی انکوائری کی جائے۔ سینیٹر سردار شفیق ترین نے کہاکہ دھاندلی زدہ انتخابات نے ملک کو بحرانوں سے دوچار کردیا ہے۔ سینیٹر ولید اقبال نے کہاکہ بین الاقوامی برادری نے پاکستان کے انتخابات پر گہرے شکوک و شبہات کا اظہار کیا ہے اور دنیا بھر نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ ملک میں ہر انتخابات پر دھاندلی کے الزامات لگاتے رہے ہیں مگر کسی بھی الیکشن کمشنر اور نگران حکومت کو دھاندلی زدہ انتخابات پر سزا نہیں دی گئی اسی وجہ سے سزا کا خوف ختم ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ نگران وزیر اعظم کا کوئی پیمانہ نہیں ہے۔ سینیٹر عرفان الحق صدیقی نے کہاکہ بدقسمتی سے ملک میں ہونے والے تمام انتخابات کو دھاندلی زدہ کہا گیا۔ انہوں نے کہاکہ حالیہ انتخابات میں جہاں جہاں سے دوسرے جیتے ہیں وہ درست ہیں مگر جہاں جہاں سے مسلم لیگ (ن) جیتی ہے اس کو دھاندلی کہتے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ پہلے جو غلط تھا وہ آج بھی غلط ہے۔ انہوں نے کہاکہ ہمیں تو سزائیں بھی سپریم کورٹ دیتی تھی اور پھر بھی ہم نے انتخابات میں حصہ لیا اور اپوزیشن میں بیٹھ گئے۔ انہوں نے کہاکہ اس نظام کو بچانے کیلئے آگے بڑھیں۔ہمارے بھی ٹکٹ چھینے گئے تھے اور ہم آج بھی آزاد حیثیت سے بیٹھے ہوئے ہیں اور کسی بھی پارٹی میں نہیں گئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کا سب سے معتبر سروے گیلپ نے جو اعداد و شمار دئیے تھے اسی کے مطابق سب نے ووٹ لئے ہیں‘ کیا خیبر پختونخوا میں الیکشن امام کعبہ نے کرائے؟۔ انہوں نے کہاکہ جب پی ٹی آئی مولانا فضل الرحمن کے پاس جاسکتے ہیں جن کا ہر وقت تمسخر اڑایا ہے تو دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ کیوں نہیں بیٹھتے ہیں۔ کیا جمہوریت اس طرح چلتی ہے، کیا اب سیاست میدانوں میں ہوگی۔ سینیٹر ہمایوں مہمند نے کہاکہ جب پاکستان کی معاشی حالت کو دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے اور ایسا کون سا کام ہے جو ہم غلط کر رہے ہیں۔ سینیٹر سیف اللہ ابڑو نے کہاکہ تحریک انصاف کے ساتھ ہر قسم کی زیادتی کے باوجود عوام نے بانی چیئرمین عمران خان کو بھرپور مینڈیٹ دیا ہے۔ انہوں نے کہاکہ آئیں سب ماضی کو چھوڑ کر اپنے حال کو خوشحال بنائیں۔ سینیٹر تاج حیدر نے کہاکہ موجودہ انتخابات کی وجہ سے قوم میں ناامیدی پیدا ہوگئی ہے ہمیں تمام مسائل دانشمندی سے حل کرنے چاہیے۔ اگر کسی بھی سیاسی جماعت کا انتخابی نشان چھینا جاتا ہے تو یہ عوام کے حقوق کی منافی ہے۔ سینیٹر عون عباس نے کہاکہ مجھے بھی ایک زندہ لاش کی طرح آزاد کیا گیا اور مجھے نفرت ہورہی ہے اس ایوان میں بیٹھنے سے۔ انہوں نے کہاکہ کون ہوتا ہے کہ مجھے ڈکٹیٹ کیا جائے۔ کون جانتا ہے کہ میں کتنے کرب سے گزرا ہوں۔ جو کچھ ہمارے ساتھ ہوا ہے اس پر آج تک کسی نے بھی بات نہیں کی۔ سینیٹر ہدایت اللہ نے کہاکہ ساری قوم نے دیکھ لیا کہ کس طرح دھاندلی کی گئی ہے۔ ریٹرننگ افسران نے خطیر رقم لیکر افغان شہری کو بھی جتوایا گیا ہے۔ سینیٹر بہرہ مند تنگی نے کہاکہ انتخابات میں جو بھی ہار جائے وہ رونا روتے ہیں۔ سینیٹر مشاہد حسین سید نے کہاکہ 8 فروری کے انتخابات تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور عوام نے آزادانہ طریقے سے اپنے حق کا استعمال کیا ہے اور ہمیں اب آگے بڑھنے کیلئے طریقہ کار بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہاکہ موجودہ بحران سے نکلنے کیلئے اس وقت اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور تمام سیاسی قیدیوں سمیت بلوچ اور خیبر پختونخوا کے مسنگ پرسنز کو رہا کیا جائے اور بانی پی ٹی آئی عمران خان کو فوری طور پر رہا کیا جائے۔ اگر سیاسی جماعتیں اپنا فیصلہ نہیں کرتی ہیں تو فیصلہ جی ایچ کیو کرے گی اور اس میں سب سے بڑی ذمہ داری میاں نواز شریف پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہاکہ اس وقت مسئلہ وزیر اعظم بننے کا نہیں بلکہ بڑا لیڈر بننے کا ہے۔ سینیٹر محمد اکرم نے کہاکہ 8فروری کے انتخابات کرانے میں الیکشن کمیشن، نگران حکومت اور سکیورٹی ادارے شفاف کرانے میں ناکام رہے ہیں۔ ان انتخابات کے نتائج مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کیلئے مثبت تھے تاہم پی ٹی آئی جو سب سے بڑی جماعت ابھر کر سامنے آئی ہے اس کیلئے مثبت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) انتخابات میں دھاندلی سے مستفید ہوتی ہے۔ سینیٹر ذیشان خانزادہ نے کہاکہ ہمیں ہر اس شخص کیلئے آواز اٹھانی چاہیے جو مشکلات کا شکار ہوں۔ سینیٹر عمر فاروق نے کہاکہ ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ہمارے ساتھ جو زیادتی ہورہی ہے وہ کون کر رہا ہے۔اس نظام کو بدلنے کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو مل کر کوششیں کرنی چاہیے۔ اس موقع پر سینیٹر مہر تاج روغانی، سینیٹر مولانا فیض محمد اور سینیٹر فوزیہ ارشد نے بھی خطاب کیا۔ ایوان بالا میں نگران وفاقی وزیر انسانی حقوق خلیل جارج کو عام انتخابات کے حوالے سے بحث کو سمیٹنے سے روک دیا گیا۔ سینٹ اجلاس کے دوران مسلم لیگ (ن) کی سینیٹر سعدیہ عباسی اور تحریک انصاف کے سینیٹر ہمایوں مہمند نے نگران وفاقی وزیر پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے کہاکہ عام انتخابات کے حوالے سے تحریک کا جواب دینے کا اختیار اس کے پاس نہیں ہے۔ تاہم ڈپٹی چیئرمین نے نگران وفاقی وزیر کو تحریک کا جواب دینے کی اجازت دیدی۔ جس پر ایوان میں کورم کی نشاندہی کردی گئی اورکورم پورا نہ ہونے پر اجلاس جمعہ تک ملتوی کر دیا گیا۔