• news

معاملات طے، شہباز شریف وزیراعظم، زرداری صدر: پیپلز پارٹی نے وزارتوں کا تقاضا نہیں کیا، صدر ن لیگ

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی + اپنے سٹاف رپورٹر سے) وفاقی دارالحکومت میں حکومت سازی اور ایک ساتھ چلنے کیلئے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے درمیان جاری رابطے کامیاب ہوگئے۔ فیصلہ کن بیٹھک منسٹرز انکلیو میں سینٹ میں قائد ایوان اسحاق ڈار کی رہائشگاہ پر ہوئی جس میں پیپلزپارٹی کی طرف سے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، مسلم لیگ ن کی جانب سے میاں محمد شہباز شریف نے فیصلہ کن مذاکرات کی قیادت کی جس میں مل کر چلنے کے معاملات طے ہونے پر دونوں جماعتوں کے سربراہان زرداری ہاس پہنچے اور شریک چیئرمین آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے پریس کانفرنس میں کلیدی فیصلوں کا اعلان کر دیا اور وزیراعظم اور صدر مملکت کے بارے میں حتمی اعلان کردیا۔ بلاول  بھٹوزرداری نے جب مسلم لیگ نون کے صدر میاں شہباز شریف کی  وزیراعظم کے منصب کے لئے  نامزدگی  کا اعلان کیا گیا تو پاکستان مسلم لیگ نون اور  پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تالیاں بجا کر اس کا خیر مقدم کیا، پریس کانفرنس میں بلاول بھٹو زرداری جب اپوزیشن جماعت کا نام لینے لگے تو وہ نام بھول گئے تو انہوں نے کہا وہ کون سی جماعت ہے جس میں پی ٹی ائی کے لوگ گئے ہیں تو جس پر انہوں نے بتایا گیا کہ اس کا نام سنی اتحاد کونسل ہے،  میاں شہباز شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں پاکستان مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم، استحکام پاکستان پارٹی کی قیادت کا بھی شکریہ ادا کیا، انہوں نے مذاکراتی  ٹیموں کے  کے ارکان کا نام لے لے کر فردا فردا سب کا شکریہ ادا کیا۔ دریں اثناء چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری نے ن لیگ کے ساتھ حکومت سازی کا معاہدہ ہونے کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے کہا ہے کہ پی پی اور ن لیگ کے نمبرز پورے ہو چکے ہیں۔ شہباز شریف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بنیں گے۔ پی پی اور مسلم لیگ ن حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ مسلم لیگ ن اور پی پی کی مذاکراتی  کمیٹیوں نے اپنا کام مکمل کر لیا ہے۔ پی پی اور مسلم لیگ ن حکومت بنانے جا رہے ہیں جو جماعت سنی اتحاد کونسل کے نام سے موجود ہے ان کے پاس حکومت بنانے کے نمبرز موجود نہیں تھے۔ آصف علی زرداری صدر کیلئے مشترکہ امیدوار ہوں گے۔ ن لیگ آصف علی زرداری کی بطور صدر مملکت امیدوار کی حمایت کر رہی ہے۔ ملک کو بحرانوں سے نکالنے کیلئے ن لیگ کا ساتھ دے رہے ہیں۔ نامزد وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ پاکستان کو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پی پی اور ن لیگ نے آزاد امیدواروں کو حکومت بنانے کا کہا ہم نے آزاد امیدواروں سے کہا تھا کہ ہم ان کی حکومت کو قبول کریں گے۔ آزاد ممبرز حکومت بناتے تو ہم اپوزیشن میں بیٹھتے۔ ان کو پیغام دیا کہ حکومت بنا سکتے ہیں تو بنائیں پی ٹی آئی نے سنی اتحاد کونسل‘ ایم ڈبلیو ایم کے ساتھ شمولیت اختیار کی مگر ان کے پاس مطلوبہ نمبرز نہیں۔ پی پی اور ن لیگ کے پاس حکومت بنانے کیلئے نمبرز پورے ہیں ہم مشاورت کے ساتھ آگے بڑھیں گے ہمارے پاس مطلوبہ نمبرز ہیں نئی حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔ اتحادیوں کا شکرگزار ہوں آصف علی زرداری کو صدر منتخب کروائیں گے۔ آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کے بھرپور تعاون پر ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ شہباز شریف نے مزید کہا کہ ایم کیو ایم ‘ آئی پی پی اور ق لیگ ہمارے اتحادی ہیں اس اتحاد نے مہنگائی‘ دہشتگردی اور ترقی کیلئے ملکر کوشش کرنی ہے۔ آزاد امیدوار اپنی اکثریت دکھائیں دل سے قبول کریں گے۔ یہ باریاں لینے کی بات نہیں ہمیں پاکستان کو مشکلات سے نکالنا ہے ہم نے ملک کے نوجوانوں کو تعلیم اور روزگار دلوانا ہے ہمارے اتحاد میں بزرگ بھی ہیں اور نوجوان بھی ہیں دونوں مل جائیں توبڑی طاقت بن جاتے ہیں ہماری جستجو پاکستان اور آنے والی نسلوں کیلئے ہے۔ پی پی نے کسی وزارت کا تقاضا نہیں کیا۔ بلاول بھٹو نے ایک سوال پر کہا کہ دیگر عہدوں کیلئے بھی فیصلے کر لئے اعلان بعد میں کریں گے یہ سفر آسان نہیں یہ سفر کانٹوں بھرا ہے۔ شہباز شریف نے کہا کہ سپیکر قومی اسمبلی اور چیئرمین سینٹ کیلئے مشاورت سے آگے بڑھیں گے۔ 16 ماہ کا جو تجربہ ہے اس کی وجہ سے ہم یہاں بیٹھے ہیں۔ بلاول بھٹو نے کہا کہ کون گورنر بنے گا اور کون سپیکر بنے گا ان عہدوں میں عوام کی دلچسپی نہیں ہوتی۔ اس موقع پر آصف علی زرداری نے کہا کہ ہماری جستجو پاکستان اور آنے والی نسلوں کیلئے ہے سب دوستوں کو خوش آمدید کہتے ہیں۔ یقین دلاتے ہیں آنے والی نسلوں کیلئے ملکر کام کریں گے۔ ہمیں پاکستان کو مشکلات سے نکال کر آسانیوں کی طرف لانا ہے۔
اسلام آباد، مری،کراچی  (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نامہ نگار خصوصی) مسلم لیگ ن کے سربراہ اور سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف پیر کی رات کشمیر پوائنٹ پر واقع میں اپنی نجی رہائش گاہ پر قیام کرنے کے بعد مری سے چھانگلہ گلی کیلئے روانہ ہو گئے۔ اس موقع پر ان کے پوتے  جنید صفدر بھی موجود تھے۔ ایسے میں مختلف مقامات پر مقامی لوگوں اور سیاحوں نے ہاتھ ہلا کر انہیں خوش آمدید کہا  جبکہ محمد نواز شریف نے پر جوش  انداز میں انہیں ہاتھ  لہرا کر جواب دیا۔ اس موقع پر شدید سری اور خراب موسم کے باوجود وہ ہشاش بشاش تھے اور نتھیا گلی کے خوبصورت مگر سرد موسم سے لطف اندوز ہوتے رہے۔ محمد  نوازشریف نتھیا گلی سے رات کو واپس اپنی نجی رہائش گا پر پہنچ گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ مری میں  وہ حکومت سازی کے حوالے سے بعض اہم شخصیات سے ملاقاتیں بھی کریں گے۔  دریں اثناء  محمد نوازشریف نے صدر مسلم لیگ ن اور وزارتِ عظمی کے امیدوار میاں محمد شہباز شریف کو حکومت سازی کی مشاورت کیلئے مری بلا لیا ہے۔ وفاق میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم سمیت دیگر ہم خیال جماعتوں سے ہونے والے مذاکرات میں پیشرفت کا بھی جائزہ لیں گے۔ اس ضمن میں مذاکرات میں سامنے آنے والی شرائط پر بھی غور ہوگا اور حکومت سازی کے مراحل تیزی سے طے کرنے کیلئے پاکستان مسلم لیگ ن کی حکمت عملی پر بھی بات چیت کی جائے گی۔ علاوہ ازیں  صدر مسلم لیگ ن شہباز شریف  نے نواز شریف سے مری  سے ملاقات کی۔ سینیٹر اسحاق ڈار اور رابطہ کمیٹی کے ارکان بھی شریک ہوئے۔ رابطوں پر بریف کیا۔ نواز شریف سے ملاقات کے بعد شہباز شریف نے چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو سے بھی ملاقات کی ۔ رہنما  مسلم لیگ ن سینیٹر عرفان صدیقی نے نجی ٹی وی سے انٹرویو میں کہا ہے کہ ہم نہیں چاہتے نظام ڈی ریل ہو، پارلیمنٹ ٹوٹے، انشاء اللہ بہت جلد معاملات طے ہو جائیں گے۔ بلاول نے جو شرائط والی بات کی وہ  ان کی خواہش ہو سکتی ہے۔ جس دن قومی اسمبلی کا اجلاس ہوگا اس دن بڑی جماعت کون اس کا تعین ہو گا۔ رہنما پیپلز پارٹی فیصل کریم کنڈی نے نجی ٹی وی سے کہا کہ 16 ماہ کی حکومت کے حوالے سے ہمیں بہت سے خدشات تھے، ہم ن لیگ کو بلیک میل نہیں کریں گے، ہمیں ان تحفظات کو پہلے دور کرنا ہے، مشکلات میں ن لیگ  کو سپورٹ کریں  گے، ہم ان کے ساتھ  حکومت میں بیٹھیں گے، کابینہ میں نہیں ہوں گے، سولہ ماہ بلاول پارٹی کو ٹائم نہیں دے سکے،  اب وزیر ہوں گے تو دے سکیں گے۔
لاہور‘ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے حکومت سازی کے حوالے سے ہونے والی مشترکہ پریس کانفرنس سے قبل سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ (ن) لیگ کو ووٹ اپنی شرائط پر دیں گے اور حکومت سازی کے لیے اپنے مؤقف پر قائم ہیں۔ اس لیے کسی اور نے اپنا مؤقف تبدیل کرنا ہے تو پیشرفت ہو سکتی ہے۔ الیکشن مہم میں (ن) لیگ کی مخالفت کے سوال پر بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں اپنی مہم کے مطابق چل رہا ہوں، اگر میں الیکشن جیت جاتا اور اکثریتی جماعت ہوتا تو کہہ سکتا تھا کہ یہ میرا مینڈیٹ ہے، لیکن عوام کی دانشمندی اور شعور دیکھیں کہ کسی ایک جماعت کو اکثریت ہی نہیں دی کہ وہ اپنے طور پر حکومت کرے۔ عوام نے پیغام دیا ہے کہ ملک ایک جماعت نہیں چلا سکتی۔ آپس میں بیٹھ کر فیصلہ سازی کریں، عوام کہہ رہے ہیں جسے حکومت کرنا ہے دوسرے لوگوں کے ساتھ ملنا پڑے گا۔ حقیقت یہ ہے کہ عوام نے ایسا فیصلہ دیا ہے جس پر اب مجبوراً تمام سٹیک ہولڈرز سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اتفاق کرنا پڑے گا تاکہ ہم نہ صرف اپنی جمہوریت بلکہ پارلیمانی نظام، معیشت اور وفاق کو بچاسکیں۔ جو سیاسی جماعتیں اتحاد بناتی ہیں تو کسی کے کچھ پوائنٹس مانے جائیں گے۔ اب اس پوری کشمکش میں واحد طریقہ ڈائیلاگ اور کمپرومائز ہے، پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ جو ہمارے پاس آئے ہیں ان سے مل کر بات کریں گے۔ مجھے (ن) لیگ کو ووٹ دینا ہے تو اپنی شرائط پر دوں گا۔ (ن) لیگ کی شرائط پر ووٹ کیسے دوں؟۔ ہمیں یا پیپلز پارٹی کو کوئی جلدی نہیں، ہم اپنے مؤقف پر قائم ہیں، کسی اور نے اپنا مؤقف تبدیل کرنا ہے تو پیشرفت ہو سکتی ہے اور اگر کوئی اپنا مؤقف تبدیل کرنے کو تیار نہیں تو بہت خطرناک تعطل نظر آ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں جو ہوگا وہ جمہوریت، معیشت اور سیاسی استحکام کے لیے فائدہ مند نہیں ہو گا۔ ایک سوال پر بلاول بھٹو نے کہا کہ آپ کے پاس کیا ثبوت ہے کہ میں اسٹیبلشمنٹ سے ملا ہوا ہوں،  مجھ پر الزام لگانے سے پہلے ثبوت دیں، اگر مولانا یا کوئی بات کرتے ہیں تو ان سے پوچھیں، اگر میری ملاقات ہوئی بھی تو کیا میں نے جمہوریت، آئین پر بات کی یا سودے بازی کی؟۔ علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے ترجمان فیصل کریم کنڈی نے کہا ہے کہ پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ (ن) لیگ کے ساتھ 16 ماہ اتحاد کرنے کا تجربہ کچھ اچھا نہیں رہا، چاہتے ہیں کہ ماضی میں جو مسائل رہے اب مستقبل میں نہ ہوں۔ انہوں کہا کہ پیپلزپارٹی اور (ن) لیگ کے منشور میں فرق ہے۔  پیپلز پارٹی کا منشور اس وقت نافذ ہوگا جب وزیراعظم ان کی پارٹی سے ہوگا، 3 سال اور 2 سال وزیراعظم بننے والا بھی کوئی فارمولا نہیں چلے گا۔ ہم پر پارٹی کا بہت زیادہ پریشر ہے کہ کابینہ کا حصہ بھی نہ بنیں اور پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کا فیصلہ ہے کہ ہم حکومت کا حصہ نہیں بنیں گے۔ جبکہ آئینی عہدوں کے لیے الیکشن لڑنا ہمارا جمہوری حق ہے۔ قیادت بہت جلد وزیراعلیٰ سندھ کے نام کو فائنل کر دے گی۔

ای پیپر-دی نیشن