بھٹو کیس، سپریم کورٹ، افواج کیلئے غلطی درست کرنے کا موقع نہیں: چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) بھٹو صدراتی ریفرنس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا ہے کہ کبھی نہ کبھی تو نئی شروعات ہونی ہے تو کیا یہ موقع نہیں؟ کیا ایسا کرنا قوم کے زخم نہیں بھرے گا؟۔ ہم ماضی میں رہ رہے ہیں اور ہماری تاریخ بوسیدہ ہے۔ کیا بھٹوکیس کے فیصلے سے عدلیہ اور فوج کیلئے ایک لکیر نہیں کھنچ جائے گی؟ مارشل لا ایک انفرادی فیصلہ ہے اسے فوج بطور ادارہ نافذ نہیں کرتی۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ہم کیس کے میرٹس کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ فیصلہ پہلے ہی ہوچکا ہے۔ جس طرح پھانسی کی سزا سنائی گئی اس طریقہ کار کو دیکھ سکتے ہیں۔9 رکنی لارجر بنچ نے سماعت کی۔ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو بھی کمرہ عدالت میں موجود رہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارا اصل فوکس آئینی پہلو کی طرف ہے۔ سابق چیف جسٹس نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔ اسے بدنیتی نہیں اعتراف جرم کہیں گے۔ جان بوجھ کر غلط کام کیا جائے تو اسے بدنیتی نہیں کہیں گے؟ ہمارا اختیار سماعت بالکل واضح ہے۔ دو مرتبہ نظرثانی نہیں ہوسکتی ہے۔ اگر میں دباؤ برداشت نہیں کرسکتا تو مجھے عدالتی بینچ سے الگ ہوجانا چاہیے۔ ممکن ہے بھٹو کیس میں جانبداری کے علاوہ کوئی نئی کیٹیگری نکالنا پڑے۔ اگر کل کو کوئی جج اٹھ کر کہے میں نے دبائو میں فیصلہ کیا تو کیا ہوگا؟۔ اگر چار تین کی اکثریت کا فیصلہ نہ ہوتا تو بعد میں ایک جج کا بیان اہمیت نہ رکھتا۔ کیا عدالت کمرے میں ہاتھی یعنی مارشل لا کو نظرانداز کردے؟۔ بھٹو کے وکیل سزا معطلی کے بجائے سزا میں کمی کی استدعا کیوں کرتے؟ کیا سزائے موت چار تین کے تناسب سے دی جاسکتی ہے؟۔ مجھے لگتا ہے کہ ہمیں کیس کے حقائق کو دیکھنا چاہیے۔ کیا بھٹو کیس افواج پاکستان اور سپریم کورٹ کیلئے اپنی غلطی درست کرنے اور ساکھ بحالی کا ایک موقع نہیں؟۔ کیا یہ موقع نہیں دونوں ادارے خود پر لگے الزامات سے دامن چھڑائیں۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا عدالتی کارروائی میں طریقہ کار درست اپنایا گیا یا نہیں، ابھی بھی آرٹیکل 186 کا دروازہ کھلنے کے سوال پر ہوں۔ اگر یہ تعین کرنا ہے کہ ججز بھٹو کو سزا سناتے وقت دباؤ کا شکار تھے تو اس کے ثبوت کیا ہوں گے؟۔ ججزکے دباؤ سے متعلق صرف انٹرویوز ہیں، کیا اس بنیاد پر فیصلہ کردیں؟ کیا اس طرح مارشل لا کے دوران سنائے گئے سارے فیصلے اٹھا کر باہر پھینک دیں؟۔ وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیئے کہ سپریم کورٹ آرٹیکل 187 کے اختیار کو استعمال کر کے بھٹو کیس کا فیصلہ کر سکتی ہے۔ بھٹو کیس میں ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے جسٹس نسیم حسن، جسٹس دراب پٹیل اور جسٹس اسلم ریاض کے انٹریوز ہیں۔ ججز کی جانبداری ثابت کرنے کے لیے سلیم بیگ اور جنرل ریٹائرڈ فیض چشتی کی کتاب اور اس وقت کے اٹارنی جنرل کا خط ہے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا جن صاحبان پر جانبداری کا الزام لگ رہا ہے ان کو سنا نہیں جانا چاہئے؟۔ چیف جسٹس نے سماعت کا حکمنامہ لکھوایا جس میں کہا گیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے لواحقین کو بھی سنا جائے گا۔ احمد رضا قصوری کو آخر میں سنیں گے۔ بعد ازاں عدالت نے سماعت 26 فروری تک ملتوی کر دی۔