• news

 ڈبل شاہ کا انتظار

ادھیڑ عمر استانی جماعت میں آئیں اور بچوں سے پوچھا، بتائو یہ کون سا صیغہ ہے اور فقرہ پڑھا کہ میں خوبصورت ہوں۔ تمام جماعت نے باجماعت جواب دیا کہ صیغہ ماضی۔ 
اب استانی کی جگہ پاکستان کو کھڑا کر دیں اور پوچھیں کہ شاعر کا یہ مصرعہ کون سا صیغہ ہے کہ ہوتا ہے شب روز تماشا میرے آگے۔ جواب آئے گا صیغہ مستقل۔ 
صیغہ مستقبل نہیں بلکہ مستقل۔ استقبال والا نہیں، استقلال والا۔ انگریزی میں کہیئے تو پرماننٹ ٹینس ہوتا تھا شب روز تماشا میرے آگے، ہوتا ہے شب روز تماشا میرے آگے اور ہوئے گا شب و روز تماشا میرے آگے۔ ایک تماشا ختم ہوتا ہے، دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے۔ ترجمان ماضی بھی تماشا، شان حال بھی تماشا اور جان استقبال بھی تماشا۔ ثبات ایک تماشے کو ہے زمانے میں۔ 
الیکشن کے دن بڑے تماشے کا اندیشہ تھا، وہ تو نہیں ہوا، الیکشن کے بعد تماشوں کا بازار گرم ہوا لیکن سب فلاپ تماشے، کسی نے مزہ نہیں دیا۔ حد یہ کہ کمشنر راولپنڈی والا تماشا بھی چند گھنٹوں بعد تماشا بن گیا۔ خبریں آ رہی ہیں کہ انقلابیوں نے امریکہ میں اس کے بنک اکائونٹ میں 50 کروڑ کی رقم جمع کرائی، امریکہ میں اس کیلئے شاندار بنگلہ خریدا، پلان یہ تھا کہ چیف جسٹس اور چیف الیکشن کمشنر پر دھاندلی والی پریس کانفرنس کر کے امریکہ پرواز کر جائے گا، ویزے کا بندوبست چند روز پہلے ہی کر لیا گیا تھا لیکن ہوا یہ کہ سب کام بگڑ گیا۔ ’’(گلوں‘‘ نے دھر پکڑا، مزاج پرسی میں سب اگل دیا۔ بے چارہ اب جیل میں رہے گا، 50 کروڑ بنک میں دھرے رہ جائیں گے، بنگلے میں بھی کوئی نیا مکین آ جائے گا اور یہ صاحب اب تو زنداں ہی کو آشیانہ سمجھیں۔ 
_____
سیاست کی تاریخ میں اچھوتا باب ایجاد ہوا کہ پی ٹی آئی کسی سنّی کونسل نامی گم نام تو نہیں، کم نام جماعت میں شامل ہو گئی۔ دو جماعتیں ملتی ہیں تو نیا نام رکھا جاتا ہے۔ 70ء میں (شاید) عوامی لیگ (نصراللہ خاں گروپ) اور نظام اسلام پارٹی ضم ہوئیں تو نیا نام جمہوری پارٹی رکھا گیا۔ اس نئے انضمام کا نیا نام کیا ہو گا؟ کوئی ایسا نام بھی رکھا جا سکتا ہے جس میں دونوں کے نام کی نمائندگی ہو۔ مثلاً پاکستان سنّی انصاف کونسل یا پاکستان سنّی انصاف۔ 
اس سے قبل مجلس وحدت نامی کسی شمالی علاقہ جات کی تنظیم سے اتحاد کی تجویز تھی لیکن پارٹی کے ارکان کی بڑی تعداد بہت بدمزہ ہو گئی، پارٹی کی وحدت کو خطرہ لاحق ہو گیا چنانچہ وحدت والوں سے معذرت کرنا پڑی۔ 
بہرحال، اس پاکستان تحریک سنّی انصاف کے سامنے بہت بڑا ہدف ہے۔ اسے 90 سیٹیں قومی اسمبلی کی ملیں اور اب ہدف امریکہ سے یہ مطالبہ کرنا ہے کہ اس 90 کو 180 کر دو۔ 
دیکھئے، امریکہ ’’ڈبل شاہ‘‘ کا کردار ادا کرنے پر تیار ہوتا ہے یا نہیں۔ 
_____
فوج ، امریکہ اور سنّی انصاف کونسل کا رشتہ بھی عجب مزے کا ہے۔ سنّی انصاف کونسل نے دو متوازی مطالبے تیار کئے۔ ایک دن ایک مطالبہ دہرایا جانا ہے دوسرے دن دوسرا۔ دن مقرر ہیں کہ کس دن کون سا مطالبہ اٹھانا ہے۔ 
مطالبہ نمبر ایک۔ امریکہ نے ہمارے خلاف سازش کی، فوج ہماری مدد کرے۔
مطالبہ نمبر دو۔ فوج نے ہمارے خلاف سازش کی، امریکہ ہماری مدد کرے۔ 
سیاسی الجبرے کی اس غیر مساوی مساوات نے امریکہ اور فوج دونوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ اور کہنے والے کہتے ہیں کہ سنّی انصاف کونسل کی یہ کامیابی کمال کی ہے کہ دونوں کو گھما کے رکھ دیا۔ 
_____
دیکھا جائے تو فوج سے زیادہ امریکہ کو گھما کے رکھ دیا ہے۔ مثلاً اس کے اس مطالبے کو دیکھئے جو وہ امریکہ سے مسلسل کر رہی ہے۔ یہ کہ ہمیں امریکہ سے حقیقی آزادی چاہیے۔ حقیقی آزادی کی اس جنگ میں امریکہ ہماری مدد کرے۔ سنا ہے امریکہ نے اس مطالبے کا مفہوم سمجھنے کے لیئے اسے گوگل ٹرانسلیشن پر ڈالا تو اس نے جواب میں لتا منگیشگر کا گانا لکھ بھیجا کہ سائل دراصل ’’ہم کو ہمی سے چرا لو صنم‘‘ والا معاملہ چاہتا ہے۔ 
_____
تحریک سنّی انصاف نے سابق خاتون اوّل بشریٰ بی بی سے جیل حکام کے نارواسلوک پر تشویش ظاہر کی ہے اور کہا ہے کہ جیل حکام بشریٰ بی بی کو زہریلا کھانا دے رہے ہیں جس کی وجہ سے محترمہ کی صحت بہت خراب ہو رہی ہے۔ 
ہمارا مشورہ بشریٰ بی بی کو یہ ہے کہ وہ جیل حکام کا فراہم کیا گیا کھانا وصول کرنے سے انکار کر دیں، زبردستی وصول کرا دیں تو ایک طرف رکھ دیں اور اپنے موکلوں کے ذریعے کسی بڑے ریستوران سے صحت بخش کھانا منگوایا کریں۔ پی ٹی آئی والوں کے مطابق وہ ملکہ رحونیات ہیں، موکلات کی فوج ظفر موج ان کے قبضہ قدرت میں ہے۔ موکلات تو آن کی آن میں امریکہ جاپان سے بھی، خوان ہائے نعمت لا سکتے ہیں۔ ایسی صورت حال میں جیل والوں کا دیا ہوا کھانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ بقول پرکاش کور: کاہنوں چوپنا ایں ٹانڈے، گھر وچ سندھوری امبیاں! 
_____
کمشنر والے دھماکے کے بعد پی ٹی آئی کے میڈیا پرسنز نے وعدہ کیا تھا کہ ایک اس سے بھی بڑا دھماکہ کل پرسوں ہونے والا ہے۔ اطلاع درست نکلی اور کمشنر دھماکے سے بم پھٹ پڑا۔ بم یوں پھٹا کہ رائل پارک لاہور میں ایک پریس سے جعلی بیلٹ پیپر پکڑے گئے۔ پریس یہ بیلٹ پیپر دھڑا دھڑ چھاپ رہا تھا۔ پریس والے نے بتایا کہ یہ بیلٹ پیپر مانسہرہ کے اس الیکشن میں استعمال ہوں گے جو 8 فروری کو منعقد ہو بھی چکا۔ بیلٹ پیپرز کی پرنٹنگ بہت معیاری تھی لیکن دو تین طرح کی کمی رہ گئی۔ ایک تو یہ الیکشن کمشن والے مخصوص کاغذ پر نہیں، عام کاغذ پر چھاپا جا رہا تھا، دوسرے اس کا ڈیزائن بھی الگ تھا، تیسرا یہ کہ اس پر امیدواروں کی لسٹ اصل والے سے ہٹ کر مختلف تھی۔ پریس کا مالک پی ٹی آئی کا جانباز کارکن تھا۔ بے لوثی اور ایثار کی حد دیکھئے، پی ٹی آئی کا ہوتے ہوئے مسلم لیگ ن کی خدمت کر رہا تھا۔ دیکھئے میڈیا پرسنز اب تیسرے دھماکے کی پیش گوئی کب کرتے ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن