• news

ماشکی کے لاہور سے جدید لاہور کا سفر!!!!

ایک ماشکی کے لاہور سے جدید لاہور کے سفر میں کئی دہائیاں گزری ہیں، کبھی لاہور میں تانگوں کا راج تھا اور کہیں گاڑی نظر نہیں آتی تھی۔ آج کے لاہور میں سڑکیں گاڑیوں سے بھری ہوئی ہیں اور کہیں تانگے نظر نہیں آتے یہ سفر دہائیوں میں طے ہوا ہے، کبھی گھروں کے دروازے کھلے رہتے تھے اور کوئی خوف نہیں ہوتا تھا آج لاہور میں سکیورٹی کے جدید نظام، سی سی ٹی وی کیمروں اور سکیورٹی گارڈز کے باوجود ہر کوئی خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ کبھی شہر میں بہت سے لوگ ایک دوسرے سے بہت واقفیت رکھتے اور جانتے تھے آج تو کئی علاقوں میں یہ پتہ نہیں ہوتا کہ ہمسایہ کون ہے۔ یہ خرابی پیدا ہونے میں بھی دہائیاں لگی ہیں۔ ان سب چیزوں کے باوجود لاہور کی خوبیاں آج بھی نمایاں ہیں، لاہور پہلے بھی باغات کا شہر تھا آج بھی ہے، لاہور ساٹھ ستر سال قبل بھی محبت کا شہر تھا لاہور آج بھی محبت کا شہر ہے، لاہور پچاس سال قبل بھی ملک کے دیگر شہروں سے آنے والوں نے سنبھالتا تھا لاہور آج بھی ویسا ہی ہے۔ ساٹھ ستر قبل بھی لاہور سے ہو کر جانے والے یہاں واپس آنے کی خواہش رکھتے تھے آج بھی لاہور لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا ہے۔ لاہور کے حسن اور دلکشی میں وقت کے ساتھ ساتھ اضافہ ہوا ہے، اندرون شہر آج بھی غیر ملکیوں کے لیے کشش رکھتا ہے۔ میں جہاں بھی جاوں لاہور واپسی کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ 
لاہور میں ماشکی جب پانی کا چھڑکائو کیا کرتے تھے تو کبھی کبھار ان کے آگے ایک شخص گھنٹی بھی بجاتا تھا تاکہ لوگ خبردار ہو جائیں۔ لاہور غالباً برصغیر کا واحد شہر ہو گا جس کے بارے میں ہر شخص نے کوئی نہ کوئی محبت سے بھری بات ضرور کہی ہے۔ اس شہر بے مثال بارے بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں، بہت سے نامور شعراء نے اپنی شاعری میں لاہور سے محبت کا اظہار کیا ہے۔ کسی زمانے میں سینما جا کر فلم دیکھنا لاہور کے شہریوں کے لیے بڑی تفریح تھی۔ لاہوریوں کو فلم دیکھنے کا بڑا شوق تھا۔ اب صرف دو تین ہی قدیم ترین سنیما رہ گئے ہیں لیکن جدید شاپنگ مالز میں جدید سینما بھی بن چکے ہیں۔ اس دور میں جب فلم لاہوریوں کی بہت بڑی تفریح ہوا کرتی تھی نئی فلموں کی پبلسٹی کے لیے تانگہ بڑا موثر ذریعہ تھا۔ نئی فلم کے بڑے بڑے پوسٹرز تانگے کے پچھلی طرف لگا دئیے جاتے تھے اور کبھی کبھی کوئی ڈھول اور گھنٹی والا بھی اس میں بیٹھ کر ڈھول اور گھنٹی بجایا کرتا تھا۔ پاکستان کی پہلی رنگین فلم نائلہ تھی جو ناز سینما میں لگی تھی۔ ناز اور نگینہ دونوں سینما ایک ہی احاطے میں تھے اور یہاں پر ایک تاریخی گنبد بھی ہے جس کے بارے میں کوئی نہیں جانتا۔ فلم نائلہ کئی ہفتے چلی، اس کے گانے بھی پسند کئے گئے۔ یہ غالباً 1966ء کی بات ہے۔ اس فلم میں شمیم آرا، درپن اور سنتوش کمار تھے اور گانے مالا بیگم نے گائے تھے۔ اسی طرح تاج اور کرائون بھی ایک ہی احاطے میں تھے۔ ایک ایسا دور بھی آیا کہ لاہور میں سینما کا کاروبار عروج پر تھا۔ پھر 1975ء کے بعد جب وی سی آر کا زمانہ شروع ہوا تو لاہور کے کئی سینما گھر پلازوں میں منتقل ہو گئے۔ لاہور کا اوریگا سینما گلبرگ ایلیٹ کلاس کیلئے تھا جبکہ الحمرا اور الفلاح بڑے خوبصورت سینما تھے۔ ارم، ریکس، نشاط اور رتن سینما اپنے دور کے مشہور سینما رہے ہیں۔ جن لوگوں نے وہ دور دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ اس وقت کیا ماحول ہوا کرتا تھا۔ فیملیز سینما گھروں میں آتیں، امیر لوگ باکس اور گیلری میں بیٹھ کر فلم دیکھتے تھے۔ الحمرا سینما لاہور کا پہلا سینما گھر جس کی دو گیلریز تھیں۔ اپر گیلری خاصی اونچی تھی۔ لاہور میں پہلی کون مشین ریگل کے پاس لگائی گئی تھی جہاں اٹھ آنے کی کون ملا کرتی تھی جو لوگ بڑے شوق سے کھاتے تھے۔ لاہوریوں کی تفریح لاہور ایئر پورٹ (پرانا والا) اور ریلوے سٹیشن کی سیر تھی۔ لاہور ایئر پورٹ پر بڑے بڑے گہرے گرین رنگ کے چمڑے والے صوفے ہوتے تھے اور پہلی مرتبہ ایک ایسی مشین لگائی گئی جس میں مختلف مشروب کی بوتلیں رکھی ہوئی تھیں، اس میں پچاس پیسے کا سکہ ڈال کر بوتل حاصل کی جاتی تھی اور بعض لوگ مشین میں کھوٹے سکے ڈال کر اس حرکت سے لطف اندوز ہوتے تھے۔
لاہور میں بینڈ باجے اور گھوڑے کے بغیر بارات کو نامکمل سمجھا جاتا تھا۔ ہم نے ایسا لاہور بھی دیکھا جب لاہور کے تیرہ دروازوں میں شاید ہی کوئی ایسا دروازہ ہو جہاں پر بینڈ باجے والے کی دکان نہ ہو۔ کسی زمانے میں سوہنی کا بینڈ اور پٹیالہ بینڈ بڑا مشہور تھا۔ پٹیالہ بینڈ آج بھی بینڈ ماسٹر حاجی عبدالمجید پٹیالوی کے پوتے مختار احمد پٹیالوی چلا رہے ہیں۔ لاہور میں ایک مدت تک لوگ امرتسری، پٹیالوی، لدھیانوی، جالندھری، گورداسپوری، بمبئی اور آگروی اپنی دکانوں اور اپنے ناموں کے ساتھ لگاتے رہے۔ لاہور میں کئی سرکاری تقریبات میں پولیس اور فوج کا بینڈ آیا کرتا تھا۔ کسی زمانے میں شادیوں کی تقریبات میں بھی پولیس اور فوج کے بینڈ آتے تھے، پھر فوج کے بینڈ کو شادی کی تقریبات میں جانے سے منع کر دیا گیا۔ اب صرف پولیس کا بینڈ شادی کی تقریبات میں آتا ہے۔
شہر میں کبھی گولی والی بوتل بھی ملا کرتی تھی۔ جسے لوگ بڑے شوق سے پیتے تھے۔ ویسے یہ بوتلیں آج بھی موسم گرما میں لاہور کے پرانے علاقوں میں ملتی ہیں۔ بوتل بہت ہی موٹے شیشے کی ہوتی تھی، دکاندار اپنا انگوٹھا ایک خاص انداز میں اس میں ڈال کر گولی کو دباتا تھا اور وہ گولی جس کو بنٹا بھی کہتے تھے، وہ بوتل کے اندر چلا جاتا تھا اور لوگ بوتل کو منہ لگا کر پیا کرتے تھے۔ کبھی بھاٹی گیٹ میں میٹھے اور گلابی دودھ والی بوتلیں بھی ملا کرتی تھیں، مجال ہے ان کو پینے کے بعد کبھی کوئی انسان بیمار ہوا ہو۔ لوگوں کی نیت اور خوراک دونوں خالص تھیں اور کئی دکاندار اپنے گاہک کو دعا بھی دیا کرتے تھے۔ اگر یہ شہر سپین یا اٹلی میں ہوتا تو یقین کریں وہاں کے لوگ اور حکومت اس کو اس کی قدیم روایات کے ساتھ زندہ رکھتے۔ کاش اس شہر کی پرانی روایات اور کلچر کو کوئی دوبارہ زندہ کر دے۔ وہ لوگ، لوگ نہ رہے۔ وہ لاہور، لاہور نہ رہا۔ یعنی ہر حال میں اگر بدلے ہیں تو لاہور میں رہنے والے یا باہر سے لاہور آنے والے ہی بدلے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ جو خالص لاہوریے ہیں وہ آج بھی قدیم لاہور کی روایات کو آگے ضرور بڑھا رہے ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ وہ روایات کے امین ہیں۔
منٹو پارک اور آج کا اقبال پارک، اس میں لوگ پتنگیں اڑایا کرتے تھے۔ ایک طرف اکھاڑہ تھا جہاں پر نئے اور پرانے پہلوان کشتی کرتے تھے ایک طرف بیڈ منٹن کا کورٹ تھا جہاں مسلم ماڈل سکول کے استاد نور محمد اپنے شاگردوں کے ساتھ کئی کئی گھنٹے بیڈ منٹن کھیلا کرتے تھے سب کچھ تو تباہ ہو گیا۔ کئی سکولوں میں گتکا بازی سکھائی جاتی تھی۔ جمناسٹک اور پی ٹی تو تقریباً ہر بڑے سکول میں ہوتی تھی۔ شہر کی فضا آج کے مقابلے میں کئی گنا صاف اور صحتمند تھی۔ میونسپل کارپوریشن کی صفائی والی گاڑیوں نے شہر کو آج کے مقابلے میں زیادہ صاف ستھرا کیا ہوا تھا۔ گلیوں میں چونا پھینکا جاتا تھا تاکہ بیماریاں نہ پھیلیں۔ پانی والا تالاب کے پاس آج بھی بلاقی شاہ کی حویلی ہے جس پر بلاقی بینک کا نام لکھا بہت سے لوگوں نے دیکھا ہو گا۔ اس حویلی میں آج بھی 1940ء کا چھت کا پنکھا چل رہا ہے۔ بجلی کے قدیم سوئچ آج بھی کام کر رہے ہیں۔ ایچی سن کالج کے پرنسپل کے گھر میں جو بجلی کے قدیم سوئچ لگے ہوئے ہیں وہ بھی دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں
افسوس آج لاہور میں اصل لاھورئیے شاید 10 فیصد سے زیادہ نہیں لیکن بڑے دل والا لاہور ہر نئے آنے والے کو اس طرح سے اپنا بنا لیتا ہے کہ وہ لاہور کا ہی ہو کر رہ جاتا ہے۔
آخر میں احمد فراز کا کلام
یہ میری غزلیں یہ میری نظمیں
تمام تیری حکایتیں ہیں
یہ تذکرے تیرے لطف کے ہیں
یہ شعر تیری شکایتیں ہیں
میں سب تری نذر کر رہا ہوں
یہ ان زمانوں کی ساعتیں ہیں
جو زندگی کے نئے سفر میں
تجھے کسی وقت یاد آئیں
تو ایک اک حرف جی اٹھے گا
پہن کے انفاس کی قبائیں
اداس تنہائیوں کے لمحوں
میں ناچ اٹھیں گی یہ اپسرائیں
مجھے ترے درد کے علاوہ بھی
اور دکھ تھے یہ مانتا ہوں
ہزار غم تھے جو زندگی کی
تلاش میں تھے یہ جانتا ہوں
مجھے خبر تھی کہ تیرے آنچل میں
درد کی ریت چھانتا ہوں
مگر ہر اک بار تجھ کو چھو کر
یہ ریت رنگ حنا بنی ہے
یہ زخم گلزار بن گئے ہیں
یہ آہ سوزاں گھٹا بنی ہے
یہ درد موج صبا ہوا ہے
یہ آگ دل کی صدا بنی ہے
اور اب یہ ساری متاع ہستی
یہ پھول یہ زخم سب ترے ہیں
یہ دکھ کے نوحے یہ سکھ کے نغمے
جو کل مرے تھے وہ اب ترے ہیں
جو تیری قربت تری جدائی
میں کٹ گئے روز و شب ترے ہیں
وہ تیرا شاعر ترا مغنی
وہ جس کی باتیں عجیب سی تھیں
وہ جس کے انداز خسروانہ تھے
اور ادائیں غریب سی تھیں
وہ جس کے جینے کی خواہشیں بھی
خود اس کے اپنے نصیب سی تھیں
نہ پوچھ اس کا کہ وہ دوانہ
بہت دنوں کا اجڑ چکا ہے
وہ کوہ کن تو نہیں تھا لیکن
کڑی چٹانوں سے لڑ چکا ہے
وہ تھک چکا تھا اور اس کا تیشہ
اسی کے سینے میں گڑ چکا ہے

ای پیپر-دی نیشن