انتخابات کیخلاف درخواست
چیف جسٹس کا سخت نوٹس
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس مسٹر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے دھاندلیوں کے الزامات کی بنیاد پر انتخابات 2024ءکو کالعدم قرار دینے کی استدعا پر مبنی درخواست کی سماعت آج 21 فروری پر ملتوی کرتے ہوئے اس امر کا سخت نوٹس لیا کہ درخواست دہندہ خود کمرہ عدالت میں موجود نہیں اور اسکی جانب سے درخواست واپس لینے کی استدعا کی جا رہی ہے۔ فاضل چیف جسٹس نے درخواست گزار کو ڈھونڈ کر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے باور کرایا کہ ہم کسی کو عدالت کا غلط استعمال نہیں کرنے دینگے۔ کیا یہ صرف مشہور ہونے کیلئے درخواستیں دائر کرتے ہیں؟ ایسا ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ درخواست بریگیڈیئر (ر) علی خان نامی ایک شخص کی جانب سے سابق کمشنر راولپنڈی لیاقت علی چٹھہ کے بیان کی بنیاد پر دائر کی گئی جس میں کہا گیا کہ 8 فروری کے انتخابات میں وسیع پیمانے پر دھاندلی ہوئی ہے اس لئے ان انتخابات کو کالعدم قرار دیکر ازسرنو انتخابات کرائے جائیں۔
آئین کی دفعہ 184 کے تحت بے شک مفاد عامہ سے متعلق کسی معاملہ پر کوئی بھی شہری سپریم کورٹ سے رجوع کر سکتا ہے اور عدالت عظمیٰ ٹھوس شواہد کی بنیاد پر اس نوعیت کے مقدمات پر میرٹ پر فیصلے صادر کرتی ہے۔ مگر بدقسمتی سے شہریوں کے اس حق کو بعض عناصر نے مخصوص مقاصد اور ایجنڈے کے تحت اور محض سستی شہرت حاصل کرنے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے جس سے عدالت کا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور پرنٹ‘ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایسے معاملات کو اچھال کر ملک اور اسکے اداروں کا تشخص خراب کرنے کی بھی کوشش کی جاتی ہے۔ عدالت عظمیٰ میں دائر کردہ متذکرہ درخواست بھی ایسی ہی کسی سازش کی کڑی نظر آتی ہے جس کے تحت انتخابات کے التواءکیلئے سینیٹ تک میں قراردادیں پیش کی گئیں۔ فاضل چیف جسٹس نے اسی تناظر میں ٹھوس کارروائی کیلئے اپنی سربراہی میں تین رکنی بنچ تشکیل دیا۔ گزشتہ روز دوران سماعت جب فاضل عدالت کے نوٹس میں یہ بات آئی کہ درخواست گزار کے وکیل تک کا نام موجود نہیں اور وہ خود بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا جبکہ وہ اب اپنی درخواست واپس لینا چاہتا ہے تو فاضل چیف جسٹس نے درخواست گزار کو ڈھونڈ کر لانے اور عدالت میں پیش کرنے کے احکام صادر کر دیئے۔ یہ کیس اب بہرصورت ان عناصر کیلئے ٹیسٹ کیس بننا چاہیے جو کسی کے مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے عدالتوں میں بے سروپا درخواستیں دائر کرکے ملک اور اداروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔