پاکستان کے انتخابات پر چین کا مثبت ردعمل
چین نے کہا ہے کہ پاکستان میں عام انتخابات مستحکم اور ہموار طریقے سے منعقد کئے گئے جس پر مبارک باد پیش کرتے ہیں۔ عالمی خبررساں ادارے کے مطابق چین کی وزارت خارجہ کی ترجمان نے کہا ہے کہ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے نتیجے میں بننے والی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ چین کی ترجمان ماو¿ننگ نے پریس بریفنگ میں حکومت سازی میں تاخیر سے متعلق ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہمیں یقین ہے پاکستان میں متعلقہ فریق یکجہتی پر قائم رہ سکتے ہیں اور مسائل کو حل کرنے کے لئے مل کر کام کر سکتے ہیں۔ چین کی ترجمان نے مزید کہا کہ ایک قریبی اور دوست ہمسایہ ملک کے طور پر چین پاکستانی عوام کے انتخاب کا مکمل احترام کرتا ہے اور پوری امید کرتا ہے کہ پاکستان کی متعلقہ جماعتیں انتخابات کے بعد سیاسی یکجہتی اور سماجی استحکام کو برقرار رکھنے کے لئے مل کر کام کریں گی.
چین نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کا خیر خواہ اور ہر مشکل میں ساتھی ہے۔یہ کہنا تو اب ضرب المثل بن چ±کا ہے کہ چین کی پاکستان کے ساتھ دوستی شہد سے میٹھی، ہمالیہ سے بلند اور سمندروں سے گہری ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی بھی گنجائش نہیں ہے۔ آج انتخابات کو لے کر پاکستان کا گھیرا تنگ کرنے کی کوشش بلکہ سازش کی جا رہی ہے۔پاکستان کو بد نام کیا جا رہا ہے اور انتخابی عمل کو متنازعہ بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ایسے موقع پر چین کی طرف سے کھل کر سامنے آنا اور انتخابات کی ساکھ پراٹھنے والے سوالیہ نشانات کا یہ کہہ کر ٹھوس جواب دینا کہ انتخابات بالکل شفاف اور غیرجانبدارانہ ہوئے ہیں، یہ ایسی قوتوں کو ٹھوس جواب ہے جو پاکستان میں عدم استحکام چاہتی ہیں۔
کئی ممالک کی طرف سے پاکستان میں ہونے والے انتخابات پر تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ ایسا عموماً ہوتا ہے لیکن جس طرح کی زبان استعمال کی گئی اور جس طرح سخت منفی رد عمل دیا گیا یہ ملک میں مداخلت کے مترادف ہے۔امریکہ اور برطانیہ کی طرف سے سخت بلکہ دھمکی آمیز بیان بازی کی گئی اس پر دفتر خارجہ کی ترجمان کی طرف سے ان کے رد عمل کو منفی اور لب و لہجے کو نامناسب قرار دیا گیا۔ وزیراعظم انوار الحق کا کڑ نے اپنے شدید رد عمل میں کہا کہ کیپیٹل ہل میں جو کچھ ہوا ہم نے تو وہاں کسی قسم کی تحقیقات کا مطالبہ نہیں کیا تھا۔کسی بھی ملک کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے بے جا قسم کے مطالبات کرے۔یورپی یونین سے بھی شدید رد عمل منسوب کیا گیا تھا مگر یورپی یونین نے وضاحت کر دی کہ ہماری پریس ریلیز کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر پی ٹی آئی کی طرف سے جعلی پریس ریلیز وائرل کی جا رہی تھی اس کی تردید کرتے ہوئے یورپی یونین کی جانب اصل پریس ریلیز بھی دوبارہ سامنے لائی گئی جس میں پاکستان کے انتخابات کے عمل کو آزادانہ قراردیا گیا۔
انتخابی عمل کے خلاف سازش میں کچھ اندرونی قوتیں بھی کار فرما ہیں ان کی طرف سے کمشنر راولپنڈی کو سامنے لایا گیا۔ڈویژن کے سربراہ کے طور پر انہوں نے جو کچھ کہا اس سے پاکستان کی دنیا میں سبکی ہوئی۔ان کے الزامات کے جواب میں پانچ متعلقہ ڈپٹی کمشنرز اور ایڈیشنل کمشنرز نے بیانات جمع کروائے اور تمام کے تمام نے کمشنر کے الزامات کو مسترد کر دیا۔ انہوں نے کہا کہ ان پر کسی قسم کا دباو¿ نہیں تھا۔
یہ بھی درست ہے کہ آج ملک میں انتخابات کے بعد غیر یقینی کی صورتحال بدستور برقرار ہے۔حکومت سازی کے معاملات جس طرح سے طے ہونے چاہئیں تھے اس میں تاخیر ہو رہی ہے۔ چینی ترجمان سے بھی یہی سوال کیا گیا تھا۔اتنی تاخیر ہونی نہیں چاہیے تھی تاہم صورتحال بہتری کی طرف جا رہی ہے۔مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین مذاکرات کے کئی ادوار ہو چکے ہیں اگر پہلے مرحلے میں معاملات طے ہو جاتے تو غیر یقینی کی صورتحال برقرار نہ رہتی تاہم اب معاملات منطقی انجام تک پہنچتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ دونوں کے درمیان حکومت سازی کے حوالے سے تو اتفاق رائے موجود ہے اب جزئیات پر بات چیت چل رہی ہے۔ تحریک انصاف کی طرف سے انتخابی نتائج پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ اس کی طرف سے پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی بات کی گئی۔ پہلے تحریک انصاف کی طرف سے کہا گیا کہ وہ مرکز اور پنجاب میں اپوزیشن میں بیٹھے گی۔اب اپنے اس بیان سے رجوع کرتے ہوئے مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ کسی بھی پارٹی کو حکومت سازی کا حق حاصل ہے بشرطیکہ اکثریت اس کے پاس ہو۔ زمینی حقیقت سر دست یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔تحریک انصاف کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کے ساتھ الحاق کیا گیا ہے۔تحریک انصاف کو چونکہ بلے کا نشانہ نہیں ملا تھا اور وہ پارٹی کے طور پر انتخابات میں حصہ بھی نہیں لے سکی تھی۔اس کے امیدواروں کی طرف سے آزاد حیثیت میں الیکشن میں حصہ لیا گیا۔اب پارلیمنٹ میں جانے کے لئے تحریک انصاف کے آزاد حیثیت میں جیتنے والے ارکان اپنی آزاد حیثیت برقرار رکھتے یا پھر کسی ایسی پارٹی میں شامل ہوتے جس کی پارلیمان میں نمائندگی موجود ہے۔ اس کے لیے تحریک انصاف کی طرف سے سنی اتحاد کونسل کا انتخاب کیا گیا۔
حکومت سازی کے لیے تاخیر سے ہی سہی مگر مثبت پیشرفت ہو رہی ہے۔مسلم لیگ ن کا پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے ساتھ سلسلہ جنبانی جاری ہے۔ تحریک انصاف بھی اپنی صفیں درست کرنے میں لگی ہوئی ہے۔ اس سب کے باوجود حکومت سازی کے حوالے سے سر دست سب اچھا والی تصویر نظر نہیں آرہی۔جس کی وجہ سے ملک میں سیاسی غیر یقینی کی فضا برقرار ہے۔ اس حوالے سے قومی قیادتوں کو اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ جتنا جلد ہو جائے معاملات طے کرنے کی کوشش کریں تاکہ پاکستان اور جمہوریت کی طرف انگلیاں نہ اٹھ سکیں۔ اس طرح پاکستان میں افرا تفری پھیلانے، اس کو تنہا کرنے اور بد نام کرنے کی سازشیں اپنی موت آپ مر جائیں گی۔