بدھ‘ 10 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 21 فروری 2024ئ
پیپلز پارٹی آئینی عہدے سنبھالنے پر تیار ہو گئی۔ معاملہ طے پا گیا۔
بالآخر اطلاعات کے مطابق پیپلز پارٹی والے آئینی عہدے، پرکشش کرسیاں سنبھالنے یا باالفاظ دیگر قبول کرنے پر تیار ہو گئے ہیں۔ یوں مرکز میں دونوں جماعتیں شیر و شکر ہوں گی۔ اب چاہے ہاتھ میں خنجر چھپا کر ہی یہ گلے ملیں گے مگر چہروں پر مسکراہٹ ہو گی۔ دلوں میں کدورتوں کا حال تو خدا ہی جانتا ہے مگر بظاہر انداز ان کا دوستانہ ہی ہو گا۔ اب دیکھنا ہے یہ مخلوط حکومت کیسے چلتی ہے۔ کیا کرتی ہے۔
مخالفین تو ابھی سے کہتے پھرتے ہیں کہ یہ بیساکھیوں کے سہارے کھڑی حکومت بمشکل چند ماہ نکال سکے گی۔ اب آگے کیا ہوتا ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا مگر فی الحال چاروں صوبوں اور مرکز میں جلد ہی نئی حکومتیں وجود میں آتی نظر آرہی ہیں۔ اس کے بعد کیا احتجاجی تحریک چلانے والی جماعتیں واپس پرسکون ہو جائیں گی۔ کیا بلوچستان اور خیبر پی کے میں ہنگامہ آرائی ختم ہو جائے گی۔ وہاں کا اصل مسئلہ کیا پی ٹی آئی والے حل کرا سکیں گے یا نئی حکومت کوئی راہ نکال پائے گی؟۔ قوم پرست جماعتوں اور فضل الرحمن کو منانا بڑا کٹھن ہے۔ کیا گنڈاپور یا زرداری یا پھر نواز شریف اس میں کامیاب ہو پائیں گے۔ یا معاملہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔
٭٭٭٭٭
افسوس ہے قابل افراد کو سیاست سے نکالا جا رہا ہے۔ صدر مملکت۔
اب یہ وضاحت بھی عارف علوی صاحب فرما دیتے کہ کون کون سے قابل افراد ان کی عقابی نظروں میں ایسے ہیں جن کو بقول ان کے سیاست سے نکالا جا رہا ہے۔ جس پرانہیں افسوس ہو رہا ہے۔اتنی سی بات تو سب جانتے ہیں کہ:
”خود راہ گم کردہ علاج نیست“
جن لوگوں نے خود راہ کھو دی ہو ان کا علاج ممکن نہیں۔ اب جن لوگوں نے خود اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ، پرتشدد احتجاجی مظاہروں کی کال دی قومی اداروں اور عمارتوں، سرکاری املاک اور گاڑیوں کو جلایا، لا اینڈ آرڈر کی صورتحال خراب کی۔ اگر وہ سب صدر مملکت کے نزدیک قابل افراد ہیں تو پھر ان کو نکالنا کیا ظلم ہے۔
صدر سب سے بڑا آئینی عہدہ ہوتا ہے۔ انہوں نے اس وقت تو خاموشی اختیار کی جب نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو اسی طرح سیاست سے نکالا جا رہا تھا، جیسے اب کپتان اور ان کے ساتھیوں کو نکالا جا رہا ہے اور صدر کو اس پر دکھ ہو رہا ہے۔ صدر سب کا ہوتا ہے کسی پر مہربانی اور کسی پر زیادتی نہیں کرتا مگر یہاں تو معاملہ ہی ا±لٹ ہے۔ وہ کھل کر پی ٹی آئی کے کھلاڑی کا رول ادا کر رہے ہیں۔ گزشتہ روز بھی ایوان صدر کو پی ٹی آئی کا دفتر بنا دیا گیا جہاں صدر کے زیر سایہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی کے رہنماﺅں کے درمیاں اتحاد کے لیے بات چیت ہوتی رہی۔ اب کوئی اس پر بات کرے گا تو کیا ہو گا۔ اس کا صدر مملکت کو احساس ہے؟کل کو ایسا نہ ہو کہ کوئی واقعی اہل افراد کو آئینی عہدے سے ہٹا کر اپنے من پسند افراد کو لے آئے۔ اس لیے فی الحال کون اہل ہے کون نااہل ہے اس کا فیصلہ ہمارے سیاسی رہنماﺅں کا کردار اور ماضی کا بیانیہ کرے گا۔ اس بارے میں جذباتی رائے دینے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی صدر مملکت کوان سیاسی جھمیلوں سے دور رہنا چاہیے۔
٭٭٭٭٭
پی سی بی براہ راست وزیر اعظم کے کنٹرول میں ہو گا۔
امید ہے اس تبدیلی سے یا اس فیصلے سے سے کھیلوں کی دنیا پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے ، کھیلوں کی دنیا میں جو کچھ ہوتا رہا ہے اس سے بہت سے لوگوں نے خوب نام بھی کمایا اور مال بھی بنایا۔ ٹیلنٹ کا قتل عام اور میرٹ کی دھجیاں اڑاتے ہوئے جس طرح اقربا پروری کو فروغ دیا گیا پسند و ناپسند کو ترجیح دی گئی اس کا خمیازہ ہم کافی عرصہ سے بھگتتے آ رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم خود کرکٹ کے عالمی کھلاڑی تھے مگر وہ بھی دیگر مسائل میں الجھے رہے۔ انہوں نے پی سی بی کے معاملات پر گرفت نہ رکھی۔ورنہ وہ بہت کچھ کرسکتے تھے۔ ایک اور سابق وزیر اعظم بھی جمخانہ میں خوب کرکٹ کھیلتے رہے مگر اس سے زیادہ وہ کچھ نہ کر سکے۔ ہاں البتہ کھلاڑیوں کو دل کھول کر نوازتے رہے۔ گراس روٹ سے ا±بھرنے والے سکول کالج سے نکلنے والے بڑے بڑے اچھے کھلاڑی سامنے آئے مگر سرپرستی نہ ہونے کی وجہ سے یا دھڑے بندی کی وجہ سے نام نہ کما سکے راہ ہی سے واپس ہو گئے اب اِدھر ا±دھر کی تاک جھانک سے ہٹ کر دست درازیوں سے محفوظ ہو کر خدا کرے پی سی بی کے معاملات درست ہوں۔ ویسے بھی موجودہ چیئرمین محسن نقوی کا برق رفتاری سے اچھے کام کرنے کا ریکارڈ بہتر ہے۔ اوپر سے وزیر اعظم بھی شہباز شریف بنے تو امید ہے شہباز کی پرواز اور محسن کی سپیڈ مل کر پی سی بی کو مثالی ادارہ بنا دے گی۔ ملک بھر سے کرکٹ کھیلنے والوں کا دل جیت لے گی اور پاکستانی کرکٹ ٹیم ہر میدان میں ہر مقابلے میں بڑے بڑے نامور کھلاڑی پیدا کرے گی۔
٭٭٭٭٭
سیتا اور اکبر کو ایک پنجرے میں رکھنے پر انتہا پسند مشتعل۔
جی ہاں کلکتہ جو اب کولکتہ کہلاتا ہے کے چڑیا گھر میں شیروں کا ایک جوڑا ایسا ہے جس میں شیرنی کا نام سیتا ہے اور شیر کا نام اکبر ہے۔ آج تک یہ جوڑا ہنسی خوشی اس پنجرے میں ایک ساتھ بند رہا۔ کوئی مسئلہ نہیں ہوا کیونکہ جانوروں میں ذات پات یا دین دھرم کا کوئی مسئلہ یا جھگڑا نہیں ہوتا۔ مگر اب چونکہ بھارت میں انتہا پسند جنونیوں نے قیامت مچا رکھی ہے۔ مساجد کو درگاہوں کو گرا کر مندر بنائے جا رہے ہیں۔ وہیں یہ اب ان مذہبی جنونیوں کی نظر اس شیروں کے جوڑے پر بھی پڑ گئی ہے۔ اور وہاں احتجاج کیا جا رہا ہے کہ سیتا کو اکبر سے یا اکبر کو سیتا سے علیحدہ کیا جائے اس سے ہمارے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچ رہی ہے۔ اس کے علاوہ ایک مطالبہ جو قدرے معقول ہے یہ بھی ہو رہا ہے کہ شیر کا نام تبدیل کیا جائے۔ حیرت ہے یہاں بھی کوئی شیرنی کا نام تبدیل کرنے کا مشورہ نہیں دے رہا۔ سارا زور اکبر کے نام پر ہے جو ایک مسلم نام ہے۔ سیتا کو تو احتراماً یہ جنونی ”سیتا میا“ کہتے ہوں گے۔ اب کہیں ایسا نہ ہو کہ ماتا شیراں والی یعنی ”درگا“ کو غصہ آ جائے کہ اس کی سواری کو یعنی شیر کو کیونکہ رگیدا جا رہا ہے۔ اب کلکتہ چڑیا گھر والے جلد ہی یہ مسئلہ حل کر کے اکبر کو تبدیل کر کے رام کا نام دیدیں گے یا کچھ اور تاکہ ان عقل سے عاری مذہبی جنونیوں سے جان چھڑا سکیں....کیا اس جدید دور میں یہ تماشہ زیب دیتا ہے۔