حکومتوں کی تشکیل، سرگرمیاں تیز
کوئٹہ‘ لاہور‘ اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ خبر نگار+ اپنے سٹاف رپورٹر سے) ایم کیو ایم پاکستان اور مسلم لیگ (ن) نے نئے حکومتی سیٹ اپ میں مل کر چلنے پر اتفاق کیا ہے۔ دونوں جماعتوں کے مذاکرات کا دوسرا دور اسلام آباد میں ہوا۔ ملاقات میں گورنر سندھ کامران ٹیسوری، مصطفیٰ کمال اور ڈاکٹر فاروق ستار شریک ہوئے۔ جبکہ (ن) لیگ کے وفد میں اسحاق ڈار، ایاز صادق، اعظم تارڑ اور محمد احمد خان شامل تھے۔ ایم کیو ایم کے مطابق دونوں جماعتوں نے ملک میں سیاسی، جمہوری اور معاشی استحکام کیلئے مفاہمت اور باہمی تعاون کا عمل جاری رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ وسائل، اختیارات اور اقتدار کے منصفانہ تقسیم کو یقینی بنانے کی بنیاد پر حکومت سازی کا سلسلہ آگے بڑھایا جائے گا۔ سندھ کے شہری علاقے کے حقوق کے تحفظ بالخصوص کراچی کی معاشی اور اقتصادی اہمیت کو بحال کرنے کیلئے مل کر آگے بڑھا جائے گا۔ دونوں جانب سے حکومت سازی کے سلسلے کو آگے بڑھانے کیلئے وفود کی مزید ملاقاتیں متوقع ہیں۔ دریں اثناء مسلم لیگ (ن) نے سپیکر پنجاب اسمبلی کیلئے مجتبیٰ شجاع الرحمان کے نام پر اتفاق کر لیا۔ جبکہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کے لئے ظہیر چنہڑ کا نام زیرغور ہے۔ علاوہ ازیں شراکت اقتدار کے فارمولے کے تحت (ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کے معاہدے سامنے آنے لگے۔ گورنر پنجاب کے لیے مخدوم احمد محمود، قمرالزمان کائرہ اور ندیم افضل چن کے نام زیر غور ہیں۔ شراکت اقتدار کا فارمولا طے پانے کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت نے گورنر پنجاب کے نام پر مشاورت شروع کر دی ہے۔ ذرائع کے مطابق پیپلز پارٹی کی قیادت حتمی مشاورت کے بعد جلد گورنر پنجاب کا نام فائنل کرے گی۔ پیپلز پارٹی کو پنجاب اور خیبر پختونخوا کے گورنرکے عہدے ملیں گے۔ ندیم افضل چن بھی گورنر کے عہدے کے لیے پارٹی قیادت کی مشاورت میں زیر غور ہیں۔ دریں اثناء ادھر پیپلز پارٹی نے بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے مشاورت مکمل کرلی۔ ذرائع کے مطابق بلاول بھٹو اور آصف علی زرداری کی زیر صدارت اجلاس ہوا جس میں بلوچستان میں حکومت سازی کیلئے مشاورت کی گئی۔ ذرائع نے بتایاکہ پیپلز پارٹی نے بلوچستان کی وزارت اعلیٰ کیلئے تین ناموں پر غور کیا جن میں صادق عمرانی، ثناء اللہ زہری اور سرفراز بگٹی کے نام شامل ہیں۔ ذرائع کے مطابق مسلم لیگ (ن) کو شراکت اقتدار میں سپیکر اور سینئر وزیر دیا جائے گا اور دونوں پارٹیوں کو ایک جتنی صوبائی وزارتیں دی جائیں گی۔ ذرائع نے بتایاکہ بلوچستان کے وزیراعلیٰ کیلئے نام کا اعلان اگلے 36 گھنٹوں تک کردیا جائے گا۔ دریں اثناء خیبر پی کے کی گورنرشپ کیلئے پی پی کی طرف سے چار نام سامنے آ گئے۔ ذرائع کے مطابق مرکزی رہنما فیصل کریم کنڈی‘ شجاع خان ‘ یاور نصیر اور امجد آفریدی گورنرشپ کی دوڑ میں شامل ہیں۔ فیصل کریم کنڈی گورنر کیلئے پی پی کے مضبوط امیدوار ہیں۔ علاوہ ازیں بلوچستان میں حکومت سازی پر مشاورت کے حوالے سے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی نے مشاورت کی۔ مسلم لیگ (ن) نے جے یو آئی سے بلوچستان میں حکومت سازی پر معذرت کر لی۔ سیکرٹری جنرل جے یو آئی عبدالغفور حیدری کا کہنا تھا کہ جے یو آئی اور (ن) لیگ کم ازکم بلوچستان میں حکومت بناسکتی ہیں۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ ہم تو چاہتے تھے کہ مل کر چلا جائے لیکن مولانا آپ نے بہت دیر کر دی۔ گزشتہ چار دن سے آپ سے رابطہ کر رہے تھے لیکن رابطہ نہیں ہوا۔ اب ہم نے پیپلزپارٹی کے ساتھ شراکت اقتدار کا معاہدہ کر لیا ہے۔ (ن) لیگ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے والی ہے۔ جے یو آئی اور ہمارا پرانا ساتھ ہے۔ ہم گرم سرد موسم میں ساتھ چلے ہیں۔ جے یو آئی کی پیشکش کے حوالے سے اعلیٰ قیادت کو آگاہ کیا جائے گا۔ اسحاق ڈار نے جے یو آئی وفد کو جواب دیا کہ اب اعلیٰ قیادت ہی اس پر کوئی فیصلہ کر سکتی ہے۔ علاوہ ازیں مولانا عبدالغفور حیدری کی قیادت میں جے یو آئی وفد نے چیئرمین سینٹ سے ملاقات کی۔ ملاقات میں بلوچستان کے سیاسی و دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان سے متعلق مشاورت کی گئی۔ دریں اثناء پاکستان مسلم لیگ (ن) کی سیکرٹری اطلاعات مریم اورنگزیب نے مسلم لیگ (ن) اور جے یو آئی(ف) سے متعلق میڈیا کی خبروں کی تردید کر دی۔ ان کا کہنا تھا کہ دونوں جماعتوں کے حوالے سے میڈیا میں آنے والی خبریں حقیقت پر مبنی نہیں۔ دونوں جماعتوں کے قائدین کے درمیان مشاورتی اجلاس ہوا جس کا باضابطہ اعلامیہ جاری کیا گیا۔ فضل الرحمان ہمارے لئے ایک بزرگ اور قابل احترام شخصیت ہیں۔ اعلامیہ کے مطابق شرکاء نے خاص طور پر صوبہ بلوچستان کو درپیش چیلینجز کو مدنظر رکھتے ہوئے صوبہ میں ایک مضبوط جمہوری حکومت کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ اجلاس نے طے کیا کہ بلوچستان میں مختلف سیاسی قوتوں کا مل کر بیٹھنا ملکی مفاد میں ہے۔ اس سلسلہ میں فریقین اپنی جماعتوں میں تعاون کے خواہاں ہیں۔
اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان باضابطہ معاہدے کے بعد سیاسی مطلع واضح ہو گیا۔ گزشتہ روز بڑی جماعتوں کے درمیان معاہدہ سے پہلے مد و جزر کی کیفیت تھی، اس کی وجہ ان دونوں جماعتوں سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے میڈیا پر بیانات تھے، تاہم بعد ازاں پس پردہ کوششوں کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون، پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلی قیادت کی طرف سے ایڈجسٹمنٹ کرنے پر آمادگی کے بعد معاہدہ ہوا، اسے دونوں جماعتیں ہی اپنے لیے ’ کامیابی ‘ تصور کر رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے ذرائع کا کہنا ہے وفاقی کابینہ میں شمولیت ان کی ترجیح نہیں تھی اور نہ ہی مذاکراتی عمل میں اس پر کبھی کوئی بات ہوئی، ایک موقف ضرور دیا گیا تھا کہ وفاقی کیبنٹ میں بھی آنا چاہیے، فی الوقت یہ باب بند ہے تاہم جب حکومت عملی طور پر کام شروع کرے گی اور موجودہ معاہدہ مکمل ہو جائے گا تو صورتحال کا ازسر نو جائزہ لیا جا سکتا ہے۔ اس وقت دونوں جماعتوں نے اپنے اپنے حصے کے مطابق عہدوں کی تقسیم کے لیے مشاورتی عمل کو شروع کر دیا ہے۔ سابق صدر آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو زرداری کی صدارت میں بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے مشاورت کو مکمل کر لیا گیا۔ اس طرح قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر اور چیئرمین سینٹ کے لئے بھی مشاورت ہو ئی ہے۔ کے پی کے میں گورنرشپ کے لیے بھی امیدوار کے نام پر غور کیا گیا ہے۔ بلوچستان میں وزارت اعلی کے لیے سردار ثناء اللہ زہری، صادق عمرانی اور سرفراز بگٹی کے نام زیر غور ہیں۔ گورنر کے پی کے کے لیے فرحت اللہ بابر، فیصل کنڈی، کے علاوہ کے پی کے کی سیف فیملی کی ایک اہم شخصیت کا نام زیر غور ہیں۔ چیئرمین سینٹ کے لیے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی موسٹ فیورٹ امیدوار ہیں۔ گورنر پنجاب کے لیے احمد محمود، قمر زماں کائرہ اور ندیم افضل چن کے نام موجود ہیں۔ مسلم لیگ ن کی طرف سے اپنی اکنامک مینجمنٹ ٹیم کا انتخاب کیا جائے گا۔ پارٹی میں اس وقت وزیر خزانہ کے لئے سینیٹر اسحاق ڈار کا پارٹی میں کوئی مد مقابل نہیں، امکان ہے کہ ان کی سابقہ مددگار ٹیم ہی ان کے ساتھ ہو گی، تاہم حتمی فیصلہ پارٹی قائد نے کرنا ہے۔ گورنر سندھ کا عہدہ جو مسلم لیگ نون کو دیا گیا ہے، یہی عہدہ ایم کیو ایم مانگ رہی ہے اور زیادہ امکان ہے کہ یہ ایڈجسٹمنٹ میں جائے گا۔ کے پی کے سے جیتنے والے پی پی پی کے واحد ایم این اے کو ڈپٹی سپیکر کا عہدہ ملنے کا امکان ہے۔