مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے مابین حکومت سازی کا فارمولہ طے
پاکستان مسلم لیگ( ن ) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے مابین حکومت سازی کے سلسلہ میں معاملات طے پا گئے،آصف زرداری صدر جبکہ شہباز شریف وزیراعظم ہوں گے۔اسلام آباد میں بلاول بھٹو کی قیادت میں پی پی وفد سے مسلم لیگ ن کے حکومت سازی کے حوالے سے کامیاب مذاکرات ہوئے۔مذاکرات میں نون لیگ اور پی پی کی رابطہ کمیٹی کے اراکین اور صدر نون لیگ شہباز شریف جبکہ بلاول بھٹو نے بھی شرکت کی۔
ملاقات میں دونوں جماعتوں نے شرائط تسلیم کر کے شراکت اقتدار کا معاہدہ طے کیا جس کے مطابق صدر مملکت کا عہدہ پیپلزپارٹی کے پاس ہوگا جبکہ وفاق میں نون لیگ کا وزیر اعظم ہوگا۔ معاہدے کے تحت صدر پاکستان آصف زرداری جبکہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف ہوں گے‘ اس کے علاوہ قومی اسمبلی کا اسپیکر نون لیگ جبکہ چئیرمین سینٹ پاکستان پیپلزپارٹی سے ہوگا۔معاہدے کے تحت پیپلز پارٹی وفاقی کابینہ کا حصہ نہیں بنے گی جبکہ گورنرپنجاب اور گورنر خیبرپختونخوا بھی پیپلز پارٹی سے ہوگا اور گورنر سندھ مسلم لیگ(ن) کا ہو گا۔ ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ وفاق میں مشترکہ حکومت بنانے جارہے ہیں ‘ شہباز شریف ایک بار پھر ملک کے وزیراعظم بنیں گے۔بلاول بھٹو نے مزید کہا کہ ہمارے پاس وفاق میں حکومت بنانے کے لئے نمبرز پورے ہیں ‘ ن لیگ صدارتی الیکشن میں آصف زرداری کی حمایت کرے گی۔
اس موقع پر شہباز شریف نے کہا کہ آزاد امیدواروں کے پاس حکومت بنانے کے لئے نمبرزپورے نہیں ‘ پیغام بھجوایا ہے کہ اکثریت دکھائیں ہم شوق سے قبول کریں گے۔شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ آصف علی زرداری آئندہ پانچ سال کے لئے صدر مملکت ہوں گے۔پریس کانفرنس کے موقع پر آصف علی زرداری‘ اسحاق ڈار اوردیگر قائدین بھی موجود تھے۔
8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں صوبوں کو عوام کی طرف سے واضح مینڈیٹ دیا گیا جبکہ مرکز میں مینڈیٹ منقسم تھا اس لیے حکومت سازی میں کچھ مشکلات درپیش تھیں۔عددی اعتبار سے تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد ارکان کی مجموعی 93 نشستیں ہیں۔دوسرے نمبر پر مسلم لیگ نون کی 75، پیپلز پارٹی کی 54 اور ایم کیو ایم کی 18 نشستیں ہیں۔تحریک انصاف کا دعویٰ ہے کہ فارم 45 کے تحت ان کی جیتی ہوئی نشستوں کی تعداد 179 ہے۔مگر زمینی حقائق یہی ہیں کہ تحریک انصاف کی حمائت کے ساتھ 93 آزاد امیدوار منتخب ہوئے ہیں جن کی کامیابی کا نوٹیفیکیشن الیکشن کمیشن نے جاری کیا ہے۔ وہ کسی دوسری پارٹی کی مدد کے بغیر حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی طرف سے، جو ان دونوں جیل میں ہیں اعلان کیا گیا کہ وہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون اور ایم کے ایم کے ساتھ نہ تو اتحاد کریں گے اور نہ ہی مذاکرات کریں گے۔گویا انہوں نے حکومت سازی کا دروازہ خود ہی بند کر لیا۔مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کی طرف سے تحریک انصاف کی حکومت سازی کا حق تسلیم کیا گیا۔اسے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ دیکھ کر مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی ایک طویل سلسلہ جنبانی کے بعد حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئیں۔
آٹھ فروری کے بعد کئی روز تک غیر یقینی کے بادل چھائے رہے جو کسی بھی صورت ملک و قوم کے مفاد میں نہیں ہو سکتے تھے۔اب حکومت سازی کے حوالے سے مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کے مابین معاملات طے ہو چکے ہیں تو غیر یقینی کی صورتحال یکسر ختم ہو گئی ہے۔
انتخابی مہم سے قبل، خصوصی طور پر مہم کے دوران مسلم لیگ نون کی طرف سے میاں نواز شریف کو وزارت عظمی کا امیدوار قرار دیا جاتا رہا۔ شاید منقسم مینڈیٹ کو دیکھتے ہوئے میاں نواز شریف خود وزارت عظمیٰ کے منصب سے پیچھے ہٹ گئیاورشہباز شریف کو وزیراعظم نامزد کر دیا گیا۔بلاول بھٹو زرداری اور شہباز شریف 16 ماہ تک ان دنوں حکومت میں رہے جب عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی تھی۔ شہباز شریف وزیراعظم اور بلاول بھٹو زرداری وزیر خارجہ تھے۔دونوں پارٹیوں کے مابین 16 ماہ کے دورانیہ میں بہتر کوارڈینیشن رہی۔ اب بھی امید ہے کہ کوارڈینیشن کی حد تک آئندہ صورتحال مزید بہتر رہے گی۔
آج پاکستان کو گوناگوں مسائل کا سامنا ہے۔ایک عرصے سے ملک سیاسی عدم استحکام سے دوچار رہا ہے۔معاشی اور اقتصادی حالات بھی مثالی نہیں۔عوامی مسائل کا بھی ایک طو مار سامنے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے۔ کچھ عرصے سے نہ صرف دہشت گردی میں تسلسل دیکھا جا رہا ہے بلکہ اس میں تیزی بھی آگئی ہے۔نئی منتخب حکومت کو ایسے کئی چیلنجز درپیش ہیں۔
انتخابات کے حوالے سے تحریک انصاف کے تحفظات اپنی جگہ پر موجود ہیں، دیگر کئی پارٹیاں بھی انتخابی نتائج کو لے کر احتجاج کر رہی ہیں۔پرامن احتجاج کسی بھی پارٹی کا حق ٹھہرا۔جس سے کسی کو محروم نہیں کیا جا سکتا۔بہتر ہے کہ الیکشن کمیشن ان پارٹیوں کی بات سنے اور ان کے تحفظات دور کرنے کا یقین دلائے تاکہ احتجاج کرنے کی ضرورت نہ رہے۔جن پارٹیوں کو لگتا ہے کہ انتخابی نتائج تبدیل کر کے ان کی جیت کو شکست میں بدلا گیا ہے ان کے لیے متعلقہ فورمز اور ادارے موجود ہیں وہاں اپنے معاملات و تحفظات رکھیں۔
سیاسی و معاشی بحرانوں اور دہشت گردی کی وجہ سے عوام کی زندگی اجیرن بنی ہوئی تھی۔خصوصی طور پر مہنگائی کے سونامیوں نے مزید خاندانوں کو خط غربت سے نیچے لا پھینکا۔ ان کو روٹی اور روزی کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ مڈل کلاس طبقہ بھی پس رہا ہے۔بحرانوں سے نکلنے اور عوام کی زندگی کو آسان بنانے کے لیے کسی بھی حکومت کی پوری توجہ کا اسی طرف مبذول ہونا لازم ہے۔یہ ملک ہم سب کا ہے۔ جتنا آج اقتدار میں آنے والے لوگوں کا ہے اتنا ہی اپوزیشن میں بیٹھنے والے لوگوں کا بھی ہے۔مسلم لیگ(ن)، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم آج حکومت میں ہیں ان کے سامنے تحریک انصاف ایک مضبوط اپوزیشن کی صورت میں موجود ہوگی۔اسے حکومت کی بے جاپالیسیوں پر گرفت کرنے کا اختیار اور حق حاصل ہوگا مگر جہاں قومی مفاد کا معاملہ ہوگا وہاں امید یہی کرنی چاہیے کہ حکومت اور اپوزیشن ایک پیج پر نظر آئیں گے۔ایسے معاملات میں دہشت گردی، مسئلہ کشمیر، افغانستان ایران کے ساتھ تعلقات، اور اس کے ساتھ ساتھ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانا بھی شامل ہے۔پاکستان اب بلیم گیم کی سیاست اور سیاسی قیادتوں کے باہم دست و گریباں رہنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔