جمعرات، 11 شعبان المعظم ، 1445ھ،22 فروری 2024ء
جماعت اسلامی نے بھی احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کر دیا۔
پہلے کیا کم احتجاجی تحریکیں چل رہی تھیں کہ اب جماعت اسلامی بھی اس میں شامل ہو کر اپنا وزن ڈال رہی ہے۔ اس کا نتیجہ کیا نکلے گا، کسی کو اس سے کوئی غرض نہیں۔ ویسے ہی جیسے الیکشن کمشن والوں کو کسی سے کوئی غرض نہیں کہ کون رو رہا ہے کون ہنس رہا ہے۔ کون حیران ہے اور کون پریشان۔ جماعت والے بے شک ایوب خان کے دور سے احتجاجی تحریکیں چلانے کا وسیع تجربہ رکھتے ہیں۔ مگر اس وقت سیاست سرخ ہے اور سبز ہے کے درمیان تقسیم تھی یوں سب دائیں بازو والے ایک طرف اور بائیں بازو والا گروپ دوسری طرف ہوتا تھا۔ یوں تحریک میں زور اور جان پڑتی تھی اب صورتحال مختلف ہے۔ خود دائیں بازو والے منتشر ہیں کوئی پیپلز پارٹی کے ساتھ ہے، کوئی پی ٹی آئی کے ساتھ ہے۔ سب اپنی اپنی ڈفلی پر اپنا اپنا راگ الاپ رہے ہیں۔ عوام بھی مذہبی جماعتوں کے باہمی اختلافات کی وجہ سے متنفر ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار بھی 2018ء کی طرح کسی مذہبی جماعت کو اتنے ووٹ نہیں پڑے کہ وہ قومی اسمبلی میں موثر گروپ بنا سکے۔ بہرحال اب شاید احتجاجی تحریک میں شامل باجا تمام سیاسی جماعتیں البتہ چاہیں تو جماعت اسلامی کے تحریک چلانے کے وسیع تجربے سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جس سے کم از کم جے یو آئی اور جماعت اسلامی میں فاصلے بھی کم ہو سکتے ہیں مگر یہ اے این پی اور بی این پی جئے سندھ وغیرہ جیسی ترقی پسند قوم پرست جماعتیں کیا ان دونوں کے ساتھ مل کر کام کر سکیں گی۔ یہ ایک اہم سوال ہے۔
٭٭٭٭٭
برطانوی شہزادے ولیم کا غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ۔
حق کی توانا آواز کہیں سے بھی بلند ہو سکتی ہے۔ اب برطانوی پرنس ولیم جو موجودہ شہنشاہ چارلس کے ولی عہد بھی ہیں نے غزہ کی المناک صورتحال کا نوٹس لیتے ہوئے غزہ میں فوری جنگ بندی کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ وہ بھی دوسروں کی طرح اس المناک صورتحال سے پریشان ہیں۔ ان سے عزہ میں بچوں ،عورتوں بوڑھوں جوانوں کا وحشیانہ قتل عام برداشت نہیں ہو رہا۔اور وہ بھی بول اٹھے ہیں۔
اب برطانوی ایجنسیاں شاہی خاندان کے کسی اہم فرد کی طرف سے ایسے بیان کو بڑی اہم بات قرار دے رہی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ برطانیہ کی طرف سے اسرائیل کی بے جا حمایت شاید وہاں کے حکمران خاندان کو بھی پسند نہیں۔ مگر کیا کریں کہ اپنے اتحادی امریکہ کا دم چھلہ بنا ہونے کی وجہ سے برطانوی حکومت اسرائیل کی سرپرستی پر مجبور ہے اور اس ظلم میں اپنا حصہ ڈال رہی ہے۔ مگر لگتا ہے اب شاہی خاندان کے اندر سے اٹھنے والی فلسطینیوں کے حق کے لیئے آواز سے برطانوی رائے عامہ بھی متاثر ہو گی کیونکہ وہ اپنے شاہی خاندان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس وقت لاکھوں برطانوی غزہ کے فلسطینیوں کے قتل عام کے خلاف اسرائیل کو مطعون کر رہے ہیں۔ روزانہ احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں مگر رشی سونک کی حکومت اندھی اور بہری بن کر عوام کی آوازوں پر مظاہروں پر غور نہیں کر رہی۔ مگر ان کے لیے بھی اب شاہی خاندان کی طرف سے آنے والی آوازوں کی طرف کان بند کرنا ممکن نہ ہو گا۔
٭٭٭٭٭
والد کو انصاف دلانا شہید بی بی کا خواب تھا۔ بلاول
ایک بڑی عجب بات ہے کہ جب خود پیپلز پارٹی والوں کے پاس حکومت تھی جو کم و بیش 3 مرتبہ رہی، وہ یہ کام کر سکتے تھے۔ خود بھٹو مرحوم کی بیٹی حکومت بھی دو مرتبہ رہی مگر انہوں نے اس خون ناحق کو فراموش کئے رکھا۔ آصف زرداری 5 سال حکمران رہے۔ انہوں نے ذوالفقار علی بھٹو چھوڑیں خود اپنی بیگم کے قاتلوں کو کیفر کردار کو پہنچانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔ ویسے ہر سالانہ برسی پر لاڑکانہ کے سیاسی اجتماع میں خوب دھواں دھار تقریریں ہوتی تھیں مگر عملی کام کہیں نظر نہیں آیا۔ اب بلاول کی خواہش ہے کہ ادارے یعنی عدالتیں ان کے نانا کو انصاف دلوائیں۔ حیرت ہے وہ اپنی والدہ کے قتل پر آواز بلند نہیں کرتے اس کی تحقیقات کا مطالبہ نہیں کرتے۔ کیا اس میں کہیں کھرا ان کے اپنوں کی طرف تو جاتا تو محسوس نہیں ہو رہا۔ اب یہ اداروں کا کام ہے کہ وہ ایسی تمام گتھیوں کو سلجھائے جس کی وجہ سے ہماری سیاست نے بہت سی تلخیوں کو جنم دیا اور بہت سے لوگوں کو فیض یاب بھی کیا۔ اب یہ سارا قصہ ختم ہونا چاہیے تاکہ سیاست دان مزید ان واقعات کی بنیاد پر لوگوں کو جذباتی طور پر بلیک میل کر کے اپنے ہاتھوں میں استعمال کرنا بند کر دیں۔ ورنہ ہمارے ہاں زندہ ہے بھٹو زندہ ہے اور زندہ ہے بی بی زندہ ہے کے نعرے لگتے رہیں گے اور زندہ لوگ ان مردوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے۔ جبکہ ان کے سیاسی مجاور حکومت میں آ کر عیش کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭
بشریٰ بی بی بنی گالہ میں ناقص کھانا کھانے سے بیمار۔ اڈیالہ جیل منتقل کیا جائے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے۔ لوگ جیل میں مضر صحت کھانا کھانے سے بیمار ہوتے ہیں اور یہاں الٹی گنگا بہہ رہی ہے کہ بشریٰ بی بی کے بارے میں پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے گھر بنی گالہ میں جہاں انہیں قید رکھا گیا ہے، زہریلی ناقص خوراک کھانے سے بیمار ہو گئی ہیں۔ بنی گالہ ایکڑوں پر مشتمل گھر ہے جہاں کچن گارڈن بھی ہے۔ گائے بھینس بھی اور بکریاں بھی ہیں۔ مرغیاں بھی ہوں گی۔ وہاں تو خالص خوراک آسانی سے میسر ہے۔ نوکر چاکر بھی موجود ہیں تو پھر یہ ناقص مضر صحت خوراک کا معاملہ عجیب لگتا ہے۔ ویسے بھی بشریٰ بی بی نے درخواست بھی دائر کر رکھی ہے کہ انہیں اڈیالہ جیل میں ہی قید رکھا جائے۔ حکومت فی الفور تحقیقات کرائے کہ یہ معاملہ کیا ہے۔ قیدی اگر گھر میں محفوظ نہیں رہ سکتے تو جیلوں میں اللہ ہی حافظ ہوتا ہے۔ اب کہیں اڈیالہ میں اگر بشریٰ بی بی کو منتقل کیا گیا اور وہاں کوئی ایسی صورتحال پیدا ہوئی تو کیا طوفان اٹھے گا۔ اس لیے حکومت اڈیالہ جیل میں قید عمران خان اور بنی گالہ میں قید بشریٰ بی بی کی صحت کا خاص خیال رکھے۔ اگر خان کو جیل میں دیسی مرغ، بکرے کا گوشت مل سکتا ہے تو بشریٰ بی بی کو بھی سرکاری طور پر بکرے کا گوشت دیسی مرغ اور دیگر خالص اشیاء مہیا کی جائیں۔ باقی ان کی مرضی ہے کہ وہ ملازموں سے من پسند کھانے پکواتی ہیں یا خود پکاتی ہیں۔ رہی بات میڈیکل کی تو وہ بھی انہیں بہترین ڈاکٹروں کی سہولت دی جائے جوکھانا چیک کر کے انہیں دے، باقی سیرو تفریح اور واک کے لیے ان کے پاس وسیع العریض بنی گالہ کا محل موجود ہے۔ اس میں پہلے ہی ورزش کا سارا سامان موجود ہے۔ وہ ان کے لیے سودمند ثابت ہو گا…
٭٭٭٭٭٭