• news

فارم45اورآرٹیکل 45

آٹھ فروری کے انتخابات کا کسی پارٹی کی طرف سے بائیکاٹ نہیں کیا گیا۔ تحریک انصاف کے لیے حالات ایسے ضرور ہوئے کہ وہ بائیکاٹ کر سکتی تھی مگر وہ الیکشن لڑنے کے لیے پر عزم رہی۔ اس کے سامنے ایک تو1985ء کے انتخابات کا پیپلز پارٹی کے بائیکاٹ کا تجربہ تھا جس پر آج بھی پیپلز پارٹی پچھتاتی ہے۔ دوسرے خان صاحب کا اپنا تجربہ2008ء کے انتخابات کے بائیکاٹ کا تھا۔ یہ فیصلہ لندن میں اے پی ڈی ایم کے اجلاس میں میاں نواز شریف کی سربراہی میں ہوا۔ جواز یہ تھا کہ مشرف آمریت میں الیکشن شفاف نہیں ہوسکتے۔ ہر صورت ق لیگ کو فتح دلائی جائے گی۔ مشرف صدر اور شوکت عزیز وزیراعظم تھے۔ لندن میں ہونے والے فیصلے پر عمل پاکستان میں ہونا تھا۔ اس اجلاس میں دوسرا فیصلہ کیا گیا کہ جملہ پارٹیوں میں سے کوئی بھی ایم کیو ایم سے اتحاد نہیں کرے گی۔ اے پی ڈی ایم میں پیپلز پارٹی شامل نہیں تھی۔ جو الیکشن میں پوری طرح ان تھی۔ آصف زرداری نے میاں نواز شریف کو بائیکاٹ کے خاتمے پر قائل کر لیا۔ عمران خان سے بھی رابطے ہوئے مگر زمیں جنبد،نہ جنبد گل محمد۔عمران خان صاحب آج بھی کئی معاملات میں اسی مقولے کی مثال بنے نظر آتے ہیں۔2008ء￿ کے انتخابات کا جماعت اسلامی اور محمود اچکزئی کی پارٹی نے بھی بائیکاٹ کیا تھا۔ ان دو تجربات کے بعد عمران خان نے انتخابی بائیکاٹ کو غالباً اپنی ڈکشنری سے نکال دیا۔
انتخابات کے بعد تین بڑی پارٹیوں کے سوا ہر پارٹی دھاندلی کا الزام لگا رہی ہے۔ مسلم لیگ اور ایم کیو ایم الیکشن کی شفافیت کی ایڑیاں اٹھا کر گواہی دے رہی ہیں۔ دھاندلی کا الزام لگانے والی پارٹیاں دْم پر کھڑی ہیں۔
مولانا فضل الرحمن شدید غم و غصے کا اظہار کررہے ہیں۔ وہ ایک سیٹ جیتے ایک ہارے۔ ان کے صاحبزادے اسعد محمود ایک ہی نشست سے امیدوار تھے۔ چار پانچ سو ووٹوں سے داورکنڈی سے ہار گئے۔ مولانا  نتائج تسلیم کرنے سے انکار کر کے سراپا احتجاج ہیں۔ تحریک انصاف، جماعت اسلامی ، تحریک لبیک ، فنکشنل لیگ، پاکستان مرکزی مسلم لیگ، اے این پی، نیشل پارٹی ہزارہ موومنٹ اور محمود اچکزئی کی ملی عوامی پارٹی میدان میں نکل آئی ہے۔ بلوچستان میں چار پارٹیوں کے اتحاد نے صوبے کو ایک طرح سے جام کر دیا ہے۔ تاہم امن کو کسی پارٹی کی طرف سے خطرے میں نہیں ڈالا گیا۔ جو خطابات میں کہا جا رہا ہے وہ دل دہلا دینے کے لیے کافی ہے۔ 
محمود اچکزئی نے اپنی تقریر میں کہا کہ بلوچستان کو بند کر دیں گے کوئی جہاز اترے گا نہ ٹرین آنے دیں گے۔ بندوق نہیں اٹھائیں گے مگر بڑے خطرناک ہیں۔ اچکزئی صاحب نے سنگین الزام لگایا کہ رگنگ کیلئے 70ارب روپے رشوت لی گئی۔ ایسا کرنے والوں کا کورٹ مارشل کیا جائے۔ اختر مینگل کا  کہنا تھا کہ  کوئٹہ کے "کرم فرما" خود انتخابی نتائج تبدیل کرانے میں ملوث ہیں۔
 محمود اچکزئی نے آر اوز سے کہاکہ راولپنڈی کے کمشنر نے دھاندلی کرنے کا اعتراف کر لیا۔آپ بھی اللہ اکبر کہہ دیں۔ بلوچستان میں احتجاج کرنے والی پارٹیوں کا بھی مؤقف ہے کہ فارم45کے مطابق ان کی جیتی ہوئی سیٹیں فارم 47میں شکست میں بدل دی گئیں۔ تحریک انصاف 85سیٹوں کے نتائج تبدیل کرنے کی دعویدار ہے۔ ہارنے والے لوگوں کا درد سمجھ آتا ہے۔ان کے الزمات درست ہوسکتے ہیں اور بے بنیاد بھی۔ اگر تحقیقات پر ان کے الزامات کی صداقت ثابت نہیں ہوتی تو کیااس کاکوئی تدارک یا تریاک کسی کے پاس ہے؟۔ٹھوس ثبوت ہیں تو متعلقہ فورمز پر رکھیں۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ صورت حال مزید دگرگوں ہورہی ہے۔نفرتیں بڑھ رہی ہیں۔ تحمل برداشت بردباری بے نشان ہو رہی ہے۔ ایسے میں کچھ اصلاح پسند سامنے آئے ہیں۔ مشاہد حسین سیدکی طرف سینٹ میں  ناصحانہ تقریر کی گئی ہے۔ وہ سب کو مل بیٹھ کر گتھی سلجھانے کا درس دے رہے ہیں۔ میاں نواز شریف سے کہتے ہیں دل بڑا کریں، وہ صدر بن جائیں بلاول کو وزیر اعظم بنا دیں۔ عمران خان کو رہا کر دیں۔ آصف سعید کرمانی صاحب سے دو روز قبل بات ہوئی انہوں نے بھی یہی کہا کہ گرینڈ الائنس بنایا جائے اس سے قبل گرینڈ ڈائیلاگ ہوں۔ سب پارٹیاں ایک چھت کے نیچے آجائیں۔ قیوم نظامی صاحب ان دونوں صاحبان کی رائے کو صائب قرار دیتے ہیں۔ مشاہد حسین  نے تو کہا کہ ورنہ جی ایچ کیو کرے گا فیصلہ، تو پھر لگ پتہ جائے گا۔ یعنی کڑاکے نکلیں گے۔ کسی نیک مقصد اور کار خیر کے لیے ڈراوا دینے میں حرج نہیں ہے مگر جسٹس سیٹھ وقار نے جنرل مشرف کو ایمرجنسی نفاذ کیس میں سنگین غداری کا مرتکب قرار دے کر سزائے موت کا فیصلہ سنایا تھا۔ سیٹھ وقار کی خصوصی عدالت اور فیصلے کو مظاہر علی نقوی کی سربراہی میں لاہور ہائیکورٹ نے کالعدم قرار دیا تھا تاہم سپریم کورٹ میں قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بنچ نے مشرف کی سزائے موت برقرار رکھی۔ گو اس پر عمل اب ناقابل عمل ہے۔ مگر اس سزا کے حکم نے مارشل لاء اور 3نومبر2007ء جیسی  ایمرجنسی کے دروازے بندکر دیئے ہیں۔
قومی حکومت بنانی ہے تو الیکشن پر70ارب روپے کے اخراجات کیوں؟ جمہوریت میں قومی حکومت چہ معنی دارد؟ ایسی حکومتیں ملوکیت میں بنتی ہیں۔ سامراجیت میں اور آمریت میں بنتی ہیں۔
لگتا ہے بات ختم ہونی ہے فارم45کے تحت مرتب کیے گئے نتائج پر۔ کسی بھی پارٹی کو تحریک انصاف سمیت8فروری کے روز پولنگ پر اعتراض نہیں ہے۔ نتائج پر اعتراض ہے۔ ہارے ہوئے بہت سے امیدوار فارم 45اٹھائے پھرتے ہیں۔ حریف ان کو جعلی قرار دیتے ہیں۔ پیر پگارا کا کہنا ہے کہ گرینڈ دھاندلی ہے لہٰذا گرینڈ کمشن بنایا جائے۔  بالآخر معاملات درست سمت میں فارم 45کے ذریعے ہی آنے ہیں۔ اگر کسی کے پاس یہ فارم جعلی ہیں تو ان کا کچا چٹھا تین منٹ میں باہر آجائے گا۔ایک فارم 45 ہے ایک ارٹیکل 45 بھی ہے جس کے تحت صدر کو کسی بھی مجرم کی سزا حتیٰ کہ سزائے موت معاف کرنے کا اختیار بھی ہے۔ پی ٹی آئی آئی عمران خان کی سزاؤں  کے حوالے سے صدر کی طرف دیکھ رہی ہے۔ کیا عمران خان اپنے جرائم کا اعتراف کرتے ہوئے سزائیں معاف کرانے پر آمادہ ہوں گے؟
مسلم لیگ ن خود کو پیپلز پارٹی کے ساتھ آسودہ محسوس کرتی ہے۔ جبکہ پیپلز پارٹی پی ٹی آئی کی طرف جھکاؤ رکھتی تھی۔ ادھر خان صاحب ہیں زمین جنبد نہ جنبد۔۔۔  مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی نے دوبارہ الیکشن میں جانے سے بچنے کے لیے ایک دوسرے کے گلے پڑنے سے  گلے لگنا بہتر جانا۔مل کر حکومت بنانے پر اتفاق کر لیا۔ شہباز شریف وزیراعظم آصف علی زرداری صدر پاکستان ہوں گے۔مبارک ہو۔

فضل حسین اعوان....شفق

فضل حسین اعوان....شفق

ای پیپر-دی نیشن