ایم کیو ایم کا گورنر ہاؤس سندھ کا قبضہ دینے سے انکار
وفاق میں حکومت سازی کے لئے سیاسی جماعتوں خصوصاً پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ کے درمیان ڈیڈ لاک سے جہاںسیاسی جمود کی جھلک شہر قائد میں بھی دیکھنے میں آرہی تھی،سیاسی سرگرمیوں نے اچانک ہی کروٹ لے لی ہے۔ منگل کو وفاق میں حکومت سازی کی ترکیب طے پانے کے فوری بعد ہی سندھ میں گورنر شپ کی بھاگ دوڑ شروع ہوگئی۔پاکستان مسلم لیگ اور پاکستان پیپلزپارٹی کے مذاکرات میں طے شدہ نکات میں سندھ اور بلوچستان میں گورنر شپ ن لیگ کے حصے میں طے پائی ہے جس کے بعد ہی پہلی توانا آواز ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے آئی۔ اس حوالے سے نومنتخب ایم این اے اور ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما مصطفی کمال کا دو ٹوک الفاظ میں کہنا تھا کہ سندھ میں گورنر شپ ایم کیو ایم کا حق ہے، دستبردار نہیں ہوں گے۔ایم کیو ایم کی طرف سے گورنرکامران ٹیسوری ہی رہیں گے۔ مصطفی کمال کا کہنا تھا کہ نہیں چاہتے سندھ کی گورنر شپ کے معاملے پر کوئی بحث ہو، سندھ میں گورنرشپ ایم کیوایم کا حق ہے‘ ایم کیو ایم کے پاس کراچی کا 80اور حیدرآباد کا 100فیصد مینڈیٹ ہے، ایم کیو ایم کی طرف سے گورنرکامران ٹیسوری ہی رہیں گیکیونکہ کامران ٹیسوری کی کارکردگی عمدہ ہے انہی کو آگے چلنا چاہیے۔
اس حوالہ سے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما ناصر حسین شاہ نے بھی پارٹی لائن واضح کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی نے بات چیت کے دوران کہا تھا کہ گورنر سندھ ہمارا ہو لیکن آخر میں فیصلہ یہ ہوا کہ گورنر سندھ کا عہدہ ن لیگ کے پاس ہوگا۔ اب یہ عہدہ ن لیگ خود رکھتی ہے یا اپنے کسی اتحادی کو دیتی ہے یہ ان کا اپنا فیصلہ ہو گا۔ میری رائے ہے کہ سندھ میں بھی ایم کیو ایم پاکستان کو ساتھ لے کر چلنا چاہیے۔ پی پی رہنما نے کہا کہ ایم کیو ایم کے پاس مینڈیٹ ہے اسے ساتھ رکھنے سے انکار نہیں کرنا چاہیے کیونکہ بہتری کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلا جائے تو زیادہ بہتر ہے۔ آصف زرداری مفاہمت کے بادشاہ ہیں اور وہ سب کو ساتھ لے کر ہی چلیں گے۔ ناصر حسین شاہ کے اس بیان سے پہلے ہی نوائے وقت اسی کالم کے ذریعے یہ بات واضح کرچکا تھا کہ ایم کیو ایم پاکستان کواس بار سندھ حکومت میں بھی شامل رکھا جائے گا۔
ادھر اس سیاسی جمود میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس نے موٹروے ایم9 حیدرآباد بائی پاس پر ایک بڑا پاور شو کر کے ذراہلچل ضرور مچائی مگر یہ پاور شو محض عقیدت مندوںکا اجتماع ثابت ہواجس میں جناب پیر صاحب پگارا کے معتقدین کی شرکت نمایاں تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ پاور شو توقعات سے زیادہ کامیاب رہا جس نے پیر صاحب پگارا سے ان کے مریدین کی روحانی عقیدت کا ایک بار پھر ڈنکا بجادیا۔ ایک روز قبل ہی سر شام لوگ جوق در جوق حیدرآباد بائی پاس پر متعین کردہ جگہ پر پہنچنا شروع ہو گئے تھے جہاں حر مجاہدین نے سیکیورٹی اور دیگر انتظامات ایک روز قبل ہی سنبھال لیے تھے۔ سندھ بھر سے لوگ ٹرینوں‘ بسوں‘ ویگنوں اور پرائیویٹ گاڑیاں ہی نہیں بلکہ بعض علاقوں سے عقیدت مندوں کے پیدل قافلے بھی سینکڑوں کلومیٹر کا سفر طے کر کے جلسہ گاہ پہنچے۔ صبح سویرے عملی طور پر ایم نائن موٹروے بند کر دیا گیا تھا۔ اس جلسے کی اہم ترین بات نظم و ضبط تھا جس کے نتیجے میں کہیں سے کوئی ناخوشگوار واقعہ کی اطلاع نہیں ملی۔ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے بینر تلے ہونے والے اس جلسہ کا شمار حالیہ برسوں میں ہونے والے جلسوں میں ہوتا ہے جس کے دور رس نتائج بھی مرتب ہو سکتے تھے مگر وقت کے غلط چناؤکے سبب جلسے کے وہ سیاسی مقاصد حاصل نہ ہوسکے جس کی توقعات کی جا رہی تھی۔ یہ جلسہ ایک ایسے وقت منعقد کیا گیا کہ جب تمام اہم جماعتیں انتخابی نتائج پر احتجاج چھوڑ کر وفاق میں اپنا حصہ بقدر جثہ وصول کرنے کی دوڑ میں لگ چکی تھیں جس سے یہی تاثر لیا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوں نے بالواسطہ طور پر انتخابی نتائج تسلیم کر لئے ہیں جس کے بعد وہ اب حکومت میں اپنا حصہ حاصل کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔ وفاقی حکومت کے لیے بڑی جماعتوں کا یہ کردار گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے کامیاب پاور شو کو مقاصد کے حوالے سے ناکام ثابت کر گیا۔ اس تمام منظر نامے میں جماعت اسلامی اگرچہ تواتر کے ساتھ انتخابی نتائج پر حتی المقدور احتجاج اور بیانات دیتی رہی تاہم جس منظر نامے میں گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کے عظیم الشان پاور شو کو جگہ نہ مل سکی تو وہاں جماعت اسلامی کی دال کیونکر گلنی تھی۔
ایم نائن موٹروے پر حیدرآباد بائی پاس کے مقام پر ہونے والے پاور شو کو یوں بھی ’’پیر صاحب پاگارہ شو‘‘قرار دیا جا سکتا ہے کہ محض چار روز بعد مورو بائی پاس پر ہونے والا گرینڈڈیموکریٹک الائنس کا جلسہ عوامی شرکت کے لحاظ سے کسی بھی طرح پہلے جلسے کا مقابلہ کرتا نظر نہیں آیا بلکہ یہ ثابت کر رہا تھا کہ یہ جلسہ حقیقتاً گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کا جلسہ ہے‘ پیر صاحب پگارا کے مریدوں کا نہیں۔