• news

سولو فلائٹ، عدم برداشت: پی ٹی آئی خیبرپختونخواہ تک محدود

ملک میں عام انتخابات کا پہلا مرحلہ مکمل ہونے کے بعد حکومت سازی کا مرحلہ جاری ہے۔ منقسم مینڈیٹ کے باعث کوئی ایک بھی سیاسی جماعت وفاق میں اکیلے حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہ تھی۔ پاکستان مسلم لیگ ن،  پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں ملکر حکومت بنانے پر آمادہ ہوگئی ہیں اس حوالے سے مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان مذاکرات کے  بعد حکومت سازی کا فارمولہ طے پاگیا ہے جس کے تحت وزیراعظم اور سپیکر قومی اسمبلی کے عہدے مسلم لیگ ن کے پاس ہونگے جبکہ صدر مملکت اور چیئرمین سینیٹ کے عہدے پاکستان پیپلز پارٹی کے ہونگے۔ شراکت اقتدار کے اس فارمولے کے تحت پاکستان پیپلز پارٹی سندھ ،بلوچستان میں وزارت اعلیٰ اور کے پی کے اور پنجاب میں گورنر کے عہدے بھی رکھے گی مگر وفاقی کابینہ کا حصہ بننے کو آمادہ نہیں۔ پنجاب میں مریم نواز پہلی خاتون وزیر اعلیٰ بننے جارہی ہیں جو کہ نہایت خوش آئند بات ہے کیونکہ جس طرح سے مریم نواز نے مشکل وقت میں اپنی پارٹی کو منظم رکھا اور سیاسی بصیرت کے ساتھ معاملات کو چلایا، امید ہے کہ اسی طرح وہ سب سے بڑے صوبہ پنجاب کو بھی بہترین انداز سے چلائیں گی اور پنجاب میں ترقی کے نئے دور کا آغاز ہوگا کیونکہ مریم نواز سمیت مسلم لیک ن کی قیادت کو اس بات کا کامل ادراک ہوگا کہ پنجاب میں گڈ گورننس اور سافٹ امیج کے ذریعے ہی وہ اپنی سیاسی ساکھ میں اضافہ کرسکتی ہے۔ دوسری جانب پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اراکین نے پارٹی پالیسی کے تحت سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کرلی ہے مگر سولو فلائٹ ،عدم برداشت اور مخالفین کے ساتھ اتحاد نہ کرنے کی پالیسی کے باعث اس بار پی ٹی آئی صرف کے پی کے حکومت تک محدود ہوگئی ہے اور اپنے دعوے کے مطابق ان سے چھینی گئی سیٹوں کے حصول کیلئے حکومت، الیکشن کمیشن پر دباؤ بڑھانے اور احتجاج کی پالیسی جاری رکھے گی، بیشتر معاملات الیکشن ٹربیونل میں جائینگے اور مینڈیٹ چوری کا بیانیہ آئندہ انتخابات تک الیکشن کمیشن کا پیچھا کریگا۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ اتحادی حکومت کسی بھی طور مسلم لیگ ن کیلئے پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔ پی ڈی ایم کی 16 ماہ کی حکومت نے بجلی گیس اور اشیائے ضروریہ کے نرخوں میں جو  ہوشربا اضافہ کیا اس کا نتیجہ حالیہ الیکشن میں عوامی ردعمل سامنے آ ہی چکا ہے اورا سکا زیادہ اثر مسلم لیگ ن پر پڑا۔ اب پی ڈی ایم ٹو اتحاد کی حکومت سے بلاول بھٹو زرداری کو شروع سے ہی ا لگ رکھنے کی کوشش میں ہیں کہ حکومت کے مشکل فیصلوں سے خود کو الگ رکھا جائے اس لئے پاکستان پیپلز پارٹی کا فوکس آئینی عہدوں پر ہے تاکہ حکومتی فیصلوں کی ذمے داری ان پر نہ ہو۔ یہ صورتحال مسلم لیگ ن کے لئے کسی طور آسان نہیں ہوگی اور انکو بھی اس بات کا ادراک ہے اس لئے انکے پارٹی اجلاسوں میں ایسی حکومت نہ لینے بارے بھی غور کیا جا چکا ہے مگر اب صورتحال کافی حد تک کلیئر ہوچکی ہے کہ وافق میں مسلم لیگ ن حکومت بنانے جارہی ہے جسکے لئے انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کی سپورٹ حاصل ہوگی۔  اب نئی آنے والی حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کے بڑے چیلنج کا سامنا ہوگا اور عوام کو معاشی ریلیف دینا ہوگا جو موجودہ معاشی صورتحال میں کسی طور آسان نہیں۔ بجلی کے نرخوں میں جتنا اضافہ ہوچکا ہے کہ  موسم سرما کے بل موسم سرما میں آنے والے طوفان کی طرف اشارہ کررہے ہیں۔ بجلی کی موجودہ قیمت بھی برقرار رہی تو بھی مئی جون میں عوام بجلی کے بلوں کو لیکر سڑکوں پر احتجاج کرتی دکھائی دیگی ۔نو منتخب حکومت کومہنگائی کے اس جن کو واپس بوتل میں بند کرنا  ہو گا ،جوموجودہ حالات میں بظاہر ممکن دکھائی نہیں دے رہا ۔ قرضے ری شیڈول کروانے کیلئے ایک دوماہ میں آئی ایم ایف سے مذاکرات شروع کرنا ہونگے اور معاشی اہداف کے حصول کیلئے عوام پر اب کون سا بم گرایا جائیگا عوام میں اس بارے شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ ماہرین معاشیات کے مطابق معاشی استحکام کے لئے  ملک میں سیاسی استحکام بہت ضروری ہے اس لئے ملک و قوم کی فلاح کیلئے تمام اداروں اور سیاسی جماعتوں کو انتہائی ذمہ داری کو ثبوت دینا ہوگا خدا نخواستہ اگر اب بھی انتقام، نفرت اور تصادم کی پالیسی کو جاری رکھا گیا تو اسکے نتیجے میں انتہائی منفی اثرات مرتب ہونگے۔

ای پیپر-دی نیشن