• news

بعدازاستعفیٰ بھی کارروائی  سپریم کورٹ کا مستحسن فیصلہ


سپریم کورٹ نے حکومت کی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم جوڈیشل کونسل کو جسٹس (ر) مظاہر نقوی کے خلاف کارروائی جاری رکھنے کی اجازت دے دی اور قرار دیا کہ جب کونسل کارروائی شروع کردے تو استعفیٰ یا ریٹائرمنٹ پر کارروائی ختم نہیں ہوسکتی۔ حکومتی درخواست کی سماعت سپریم کورٹ کے جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی۔ دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی کے استفسار پر عدالتی معاون اکرم شیخ نے کہا کہ میرا موقف ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی کا انحصار جج کے استعفے سے نہیں ہونا چاہیے۔عدالتی معاون خواجہ حارث نے اپنے ریمارکس میں کہاکہ جج کی ریٹائرمنٹ یا استعفے کے ساتھ ہی سپریم جوڈیشل کونسل کی کارروائی بے معنی ہوجاتی ہے، جج اپنی تضحیک برداشت نہ کرسکنے پر بھی استعفیٰ دے سکتا ہے۔ آرٹیکل 209 کا مقصد جج کو عہدے سے برطرف کرنا ہے، جب ایک جج عہدے پر ہے ہی نہیں تو کونسل کی کارروائی کیسے ہوسکتی ہے؟جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ آرٹیکل 209 شق 5 میں درج ہے کہ جج عہدے پر ہو یا نہیں کونسل کارروائی کرسکتی ہے، جج کے استعفے یا ریٹائرمنٹ کی صورت میں صرف صدر کو سفارش والا حصہ ختم ہو جائےگا، جج کے خلاف شکایت پر انکوائری لازم ہوگی۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ حکومتی درخواست منظور کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے سابق جج سپریم کورٹ مظاہر نقوی کیخلاف جوڈیشل کونسل کو انکوائری جاری رکھنے کی اجازت دے دی ہے۔ بے شک جسٹس مظاہر نقوی اپنے اوپر لگنے والے الزامات کو بے بنیاد قرار دے رہے ہیں‘ وہ صرف سپریم جوڈیشل کمیشن کے سامنے ان الزامات کو بے بنیاد ثابت کرکے ہی سرخ رو ہو سکتے ہیں اس لئے انہیں کمیشن کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے۔اس سے جہاں عدالتی نظام میں احتساب کی روایت پختہ ہو گی‘ وہیں ایسے ججوں کیخلاف کارروائی عمل میں لائی تاکہ بعداز ریٹائرمنٹ پنشن سمیت اپنی تمام مراعات حاصل کر سکیں۔عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور اس پر عوام الناس کا اعتماد پختہ کرنے کیلئے ضروری ہے کہ عدالت کے اندر احتساب کا مربوط نظام قائم ہوکیونکہ شفاف احتسابی عمل قائم کرکے ہی دنیا میں اپنے عدالتی نظام کو منوایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا آرٹیکل 209 شق 5 کے تحت جسٹس مظاہر نقوی کے خلاف کی جانیوالی انکوائری میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیے۔ تمام آئینی اور قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے اس انکوائری کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے۔اسے ٹیسٹ کیس بنا کر ہی عدل گستری میں ایک اچھی مثال قائم کی جاسکتی ہے۔


جاسکے گی جو خود پر لگائے گئے الزامات پر اپنا دفاع کرنے کے بجائے استعفیٰ دینے کو ترجیح دیتے ہیں 

ای پیپر-دی نیشن