آصف علی زرداری امید کی کرن
میرے ذاتی تجزیے سے کسی کو بھی اختلاف کا حق ہے لیکن میری طالب علمانہ تحقیق اور تجزیہ یہی ہے کہ پاکستان میں اقتدار کی تبدیلی اور حکومت کی تشکیل میں انٹرنیشنل اسٹیبلشمینٹ کا کردار کہیں نہ کہیں ضرور ہوتا ہے۔ خاص طور پر ورلڈ اکنامک اسٹیبلشمینٹ کا کردار جو ہم نے بار بار دیکھا بھی۔ مثال کے طور پر حکومتوں کا گرنا اور نئے وزیراعظم کا کہیں اوپر سے نازل ہوجانا۔ جیسے معین قریشی یا پھر شوکت عزیز۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ کسی ملک میں پہلے سیاسی اپ سیٹ برپا ہو اور اس کے بعد کسی غیر ملکی بینک کے ملازم کو باقاعدہ وزارت عظمیٰ کا چارج لینے کے لیے پاکستان بھیج دیا جائے۔ سیاست اور حکومت سے دلچسپی رکھنے والے جانتے ہیں کہ پاکستان کے کتنے وزراءخزانہ ایسے رہے ہیں جن کا تعلق کسی نہ کسی طرح ورلڈ بینک یا کسی دیگر بین الاقومی فنانشل انسٹی ٹیوٹ سے ضرور تھا۔
حتیٰ کہ اگر غلطی سے کبھی کوئی حکومت اپنا نمائندہ وزیر خزانہ مقرر کر بھی دے اور وہ آئی ایم ایف جیسے کسی ادارے سے اپنے ملک کے حق میں مذاکرات کی جرا¿ت بھی کر بیٹھے تو اسے وزارت سے یوں نکال پھینکا جاتا ہے جیسے مکھن میں سے بال۔ پچھلے دو سالوں میں تو کمال ہی ہوگیا ہے۔ سائفر کہانی اور اسکے بعد عدم اعتماد اور پھر اسمبلیوں کے ممبران سے ایک غیر ملکی سفارت خانے کے ذمہ داروں کی ملاقاتیں اور خبریں۔ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے حالات کا اگر جائزہ لیا جائے تو امریکی اور برطانوی کنسرن بار بار نظر آتا ہے۔ البتہ کہیں کہیں درمیان میں سعودی عرب جیسے ممالک کا کردار بھی ملتا ہے جس کے بارے میں اگر یہ کہا جائے کہ ممالک ایک دوسرے کے لیے ڈپلومیسی کرتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔
8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتائج نے صرف ن لیگ اور مولانا فضل الرحمان کے اندازے بری طرح غلط ثابت کیے ہیں۔ میاں نوازشریف تو الیکشن سے پہلے بار بار پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ مجھے دو تہائی اکثریت چاہیے لیکن ظاہر ہے ایسا ممکن نہیں ہوسکا اور مولانا صاحب کا ردعمل تو پورے ملک کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ بقول پی ٹی آئی مبصرین اتنی واضح مبینہ دھاندلی کے باوجود بھی مولانا کو سیٹ اور میاں نوازشریف کو دوتہائی اکثریت کا نہ ملنا جہاں خود ن لیگ اور جے یو آئی ف کے لیے پریشان ک±ن ثابت ہوا وہیں عوام نے ووٹ کے ذریعے تحریک انصاف پر پورے اعتماد کا اظہار بھی کر دکھایا۔ اگرچہ نتائج کے باعث حکومت سازی میں سیاسی پارٹیوں کی تاخیر کی وجہ سے ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال بھی پیدا ہوئی لیکن بالآخر حالات ہنگ پارلیمینٹ سے منگ پارلیمینٹ تک پہنچ ہی گئے ہیں اور سنا ہے امریکی سفارت خانے کو پھر میدان میں آنا پڑا ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ پچھلے کچھ دنوں سے امریکی سفارت کار سیاستدانوں سے مل کر انہیں سمجھانے بجھانے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ ملک کو کسی نئے بحران میں مت دھکیلا جائے۔ اس بات میں کوئی مبالغہ نہیں کہ پاکستانی معاشی صورتحال انتہائی حساس ہے اور 24 ارب ڈالر قرضے کی ادائیگی سر پر آ پہنچی ہے۔ نئی پاکستانی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہی یہی ہے کیونکہ ملک کے پاس گروی رکھنے یا بیچنے کےلیے شاید ہی کچھ بچا ہو۔ دوسری طرف عوام کی ہڈیوں میں بھی کچھ نہیں بچا۔ گویا ایک بحران سے بچ کر ایک اگلے بحران کی طرف سفر جاری ہوا چاہتا ہے۔ شہباز شریف صاحب کا پھر سے وزیراعظم بن جانا کم از کم ایک بات کی دلیل تو ہے کہ جس طرح انہوں نے مشکل فیصلے کرکے اور عوام کا بھرکس نکال کر حکومت کی ہے حکومت بخش قوتوں کے نزدیک نہ صرف ان کا رتبہ بلند ہوا ہے بلکہ شہباز شریف سب کا اعتماد جیتنے میں بھی کامیاب ہوئے ہیں۔ اگرچہ ملک میں زرعی و معدنیاتی انقلاب جس کی بنیاد جنرل عاصم منیر نے رکھی ہے، ملک کو بحران سے نکالنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ آصف علی زرداری بھی جنرل عاصم منیر کی پاکستان کو معاشی بحران سے نکالنے کی حکمت عملی پر اعتماد کا اظہار کرچکے ہیں۔ ان کے ویڑن کے مطابق خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل اور بینظیر انکم سپورٹ پروگرام ملک اور عوام کو ریلیف دینے کا ذریعہ ثابت ہونگے۔
آصف علی زرداری کے مطابق ملک کے تاجر ، بلوچستان کا اکنامک پوٹینشل ، چین اور دیگر بین الاقوامی انویسٹرز کی اپنی اپنی جگہ کارکردگی اور افادیت پاکستان کو بحران سے نکال سکتی ہے۔ زائرین اور سیاح بھی کچھ نہ کچھ ریونیو لانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں اگر ملک میں امن پیدا کرلیا جائے۔ اگرچہ پاکستان دشمن ممالک کی طرف سے دہشت گردی کی وارداتوں میں اضافے کا امکان بدرجہ اتم موجود ہے لیکن حکومت ملک کو سیاسی بحران سے نکال کر معاشی ترقی کے ٹریک پر چڑھانے کی کامیابی حاصل کر لے تو افواج پاکستان کی دہشت گردی سے لڑنے کی پیشہ ورانہ مہارت پر بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ صدر آصف علی زرداری کے صدر بننے سے پاکستان ایران تعلقات کی گرمجوشی بھی بحال ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں اور ممکن ہے پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بھی بحال ہوجائے۔ عہد حاضر میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی عوام دوستی اور غریب کا احساس کرنے میں آج بھی سب سے آگے ہے۔ ویسے بھی اب ملک کے عوام کی اکثریت کا ان سیاسی پارٹیوں پر عدم اعتماد کا اظہار خطرے کی ایسی گھنٹی ہے کہ اگر اتحادی حکومت ملک اور عوام کے لیے کچھ نہ کرسکی تو پھر اپنی سیاسی آخری رسومات کا انتظام بھی کرلے۔ خاص طور پر نون لیگ تو بالکل ہی امید نہ رکھے۔
٭....٭....٭