قومی حکومت پاکستان کی ضرورت ہے
پیش گوئی نہ ممکن ہے نہ ہی اہلیت۔ بس تجزیئے ہیں جو سالہا سال سے (جب سے لکھنا شروع کیا) شائع ہوتے اور تاریخ کا حصہ بنتے گئے۔ ابھی تک گو واضح طور پر ہر ممکن حد تک پوشیدہ امر کو ملحوظ رکھا گیا پر ہے وہی جو پچھلے کالم میں چھپ چکا ہے۔ یہ ضمیر کیا ہے ؟؟ اکثر خاص مواقع کے بعد ہی کیوں جاگتا ہے؟؟ انسانی وجود کا حصہ ہے تو ہمیشہ جاگتا رہنا چاہیے۔ اگر جِنس ہے تو پھر بکاو¿۔ دباو¿۔ تحریص کا کیا کام ؟کیا عجیب چیز ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد دانشور۔ حبِ وطن پر دلسوز رائے اور جاگنے کے بعد سچ۔ سچ کا موسم تو تا ابد سے طلوع ہے، کبھی غروب نہیں ہوتا۔ زوال صرف طمع۔ وقتی مفاد کا مقدر۔ یہ وہ تحریر ہے جو چاہے کتنا ہی طاقتور ترین کیوں نہ ہو۔ مٹا نہیں سکتا اسلئیے سب سچ بولیں۔ وقت پر بولیں اور سب کے سامنے بولیں۔
پاکستان تو ”انشا ء اللہ“ قائم ہی رہنے کے لیے بنا ہے ”کھپے گا اور ضرور کھپے گا “۔ اصل بات تو یہ ہے کہ دوڑ دھوپ۔ ذاتیات کی شوریدہ سری۔ لفاظی کی جنگ صرف اور صرف ”کرسی“ کی طلب کے لیے ہے۔ صاحب شعور اور تاریخ سے باخبر لوگ ”اہل سیاست“ کی شعبدہ بازیوں۔ قوم و ملک بابت دغا بازیوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔ نہ ملک میں کوئی بحران ہے نہ آگ لگی نظر آتی ہے۔ آگ سیاست کی زبانیں اگل رہی ہیں۔ نیتوں میں لگی آگ کو بجھا دیں سب ٹھیک ہو جائے گا۔ پاکستان محفوظ تھا، ہے اور رہے گا۔ کیونکہ ہمارا وطن محفوظ ہاتھوں میں ہے۔
ہر طرف ہی شور۔ ہنگام بپا ہے۔ پہلے تو ایک۔ دو جماعتیں اشخاص احتجاج کرتے نظر آتے تھے اب تو چاروں اکائیوں میں مظاہرے۔ ریلیاں- پے در پے پریس کانفرنسز ہو رہی ہیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ عوامی موڈ کیا ہے۔ پہلے اعتراف خفیہ کرتے تھے اور اب اعلانیہ ہو رہا ہے۔ اب کیا ضروری ہے کہ سب جماعتیں حکومت میں رہیں۔ پاکستان ایک بڑا ملک ہے ”30کروڑ“ کی آبادی ہے۔ سب اپنی پسند کا حق رکھتے ہیں۔ ”خاندانی جاگیر“ تو نہیں کہ اکثریت انھی کو ملتی رہے راگ جمہوریت کا اور رویے۔ چلن آمرانہ۔ جن پر جتوانے کا الزام ہے وہ بھی میدان میں ہیں۔ کیا سب جمہوریت کے لوازمات ہیں ؟؟
ہاں یہ بالکل واضح ہے کہ ہم واقعی معاشی بحران کا سامنا کر رہے ہیں اور دنیا میں ہم اکیلے نہیں۔ اسوقت ”جاپان اور برطانیہ“ بدترین کساد بازاری کا شکار ہیں مگر ان کے عوام اور ان کی قیادت کا رویہ۔ اقدامات ہم سے قطعی بر عکس ہیں۔خود دار اور ذِمہ دار اقوام کے فرائض واقعی نظر آتے ہیں بحران آتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں ”کالی رات“ کی طرح قوم پر بیٹھ نہیں جاتے جبکہ یہاں ہم ذرا خود کا جائزہ لیں تو دکھائی دے گا کہ سبھی ذِمہ دار ہیں ہم سبھی اپنے مفاد کو مقدم رکھتے ہیں اور فرائض بابت سنگین غفلت۔ دانستہ لاپرواہی میں مبتلا ہیں۔ بھول جاتے ہیں کہ ”ایک آنکھ“ اوپر بھی ہے جس کو کبھی اونگھ نہیں آتی۔ ایک ”عدالت“ اوپر بھی ہے جس میں ناانصافی نہیں ہوتی۔ سب سے بڑی عدالت۔ جس کی سماعت نہ موخر ہونے والی ہے اور جس میں نہ کوئی سفارش چلے گی۔ تب کیا ہوگا؟؟ اہل یقین خوب جانتے ہیں علم رکھتے ہیں روزِ جزا و سزا کا۔ اب مہلت ہے تو سچ کو ترویج دیں۔ حق کے ساتھ کھڑے ہوں۔ ظلم مٹا دیں۔ ظالموں کا ساتھ چھوڑ دیں۔ ناحق نا انصافیاں بند کر دیں۔ مومن ایک سوراخ سے دوسری مرتبہ نہیں ڈسا جاتا۔ اِس حدیث مبارکہ کو حرزجان بنا لیں۔
”پی۔ ٹی۔آئی“ میں ابھی تک تنظیمی معاملات درست خطوط پر استوار نہیں ہوسکے ہیں۔ ڈسپلن اور رہنماو¿ں کا احترام بہت ضروری ہے۔ الفاظ میں شائستگی۔ لہجوں میں نرمی۔ کام میں منظم منصوبہ بندی کامیابی کے لیے اشد ضروری ہے۔ اب بھی اہتمام کر لیں کہ معاملات تجربہ کار۔ سلجھے ہوئے لوگوں کو سونپے جائیں نہ کہ نئے آنے والوں اور میڈیا رونمائی کے شائقین لوگوں کو۔ ”پی۔ ٹی۔آئی“ کے اندرونی حالات پر ان کے عرصہ اقتدار کے پہلے سال سے کافی تفصیل سے لکھ چکی ہوں سب غلطیوں کی اِس سے بہتر مثال نہیں ہو سکتی کہ جس ”ٹینک“ پر بیٹھ کر دشمن پر حملہ کرنے جا رہے تھے اسی پر اپنے سوار ٹینک کا بارود برسا دیا۔ نتائج؟۔ تاحال رزلٹ آرہے ہیں۔ اب بھی تواتر سے غلطیاں سرزد ہو رہی ہیں۔ بیک وقت سب کے خلاف محاذ آرائی۔ نتائج ہنوز نشر ہو رہے ہیں۔ صرف ایک ”بی بی“ کا معاملہ تو نہیں۔ دل۔ دماغ میں شک آتا ہے تو سوال اٹھتا ہے۔بہت اچھا۔خواتین کا احترام بجا۔ احترام کی سوچ کو سلام۔ کیا ہی اچھا ہو کہ پوری قیدی خواتین کے گھروں کو ”سب جیل“ قرار دیدیں۔ انصاف کی فراہمی سب کے لیے یکساں کا وعدہ بھی اِسی دور میں پورا ہو جائے تو اچھا ہوگا۔
منتخب وزیر اعظم۔ منتخب وزیر اعلیٰ پانچ سالوں میں اتنا کام نہیں کر سکے جتنا ایک ”نگران وزیر اعلیٰ“ نے کر دکھایا۔ وہ بھی چند مہینوں میں۔ ”محسن سپیڈ“ واقعی تادیر یاد رہے گی۔ جو حالات ہیں کیا ہی اچھا ہوتا کہ پانچ دس سال کے لیے ”قومی حکومت“ کی داغ بیل ڈال دی جاتی۔ اہداف کا تعین کرکے ان پر دن رات کام کا حکم جاری کر دیتے۔ سخت مانیٹرنگ کا نظام چلتا رہتا تو بہتر تصویر نشر ہوتی۔ نقشہ۔ ترتیب طے ہے مگر چونکہ جلسے تھے۔سامعین تھے ہدف نوجوان تھے خود بھی نوجوان تو اب بظاہر دکھائی جانے والی منظر کشی تو بہت ضروری ہوگئی تھی۔ لو اور دو کے علاوہ کچھ نہیں۔ کوئی کتنا سمیٹ سکتا ہے۔ اِس کے سوا کچھ نہیں تھا۔ 75سالہ تاریخ سامنے ہے۔گرد اتنی اڑا دی گئی ہے کہ سچ بات بھی سچ معلوم نہیں ہوتی۔ شکوک۔ بد اعتمادی اتنی کبھی نہیں تھی جو کچھ سالوں سے دیکھ رہے ہیں۔ حل یہی ہے کہ صرف زبانی کلامی نہیں عملی طور پر ہرایک کے مینڈیٹ کو تسلیم کیا جائے۔ سسٹم میں آئیں گے تو سسٹم ٹھیک ہوگا۔
منتخب ہو کر آنے والے ”پارلیمان“ کو مسائل حل کرنے کی بجائے سڑکوں پر شور شرابہ کو مقدم رکھیں گے تو انتشار بڑھے گا۔ یہ انتشار اب ختم نہیں ہونے والا۔ فلور کراسنگ۔ خرید و فروخت کے دھندے۔ بڑی قومی جماعتیں اِس ناسور کر ختم کر دیں۔ یہ وہ امراض ہیں جو ہر جماعت سے لپٹتے رہے ہیں اور مستقبل میں بھی اِن کا استعمال جاری رہے گا۔ اگر مکمل تدارک نہ کر سکے۔ امیر جماعت اسلامی بولتے بہت اچھا ہیں تو وہاں الفاظ کا چناو¿ بھی نہایت عمدگی کا اظہار کر تا ہے۔ حالیہ دنوں ”عبرت ناک جیت“ کا فقرہ سنا تو ہنسی آگئی۔ کاش ہمارے اکابرین۔ مدبرین دلکش۔ یادگار الفاظ کو ساتھ رکھتے ہوئے اپنے عمل کو بھی یادگار بنا سکیں۔ قوم و ملک کی فلاح۔ اداروں کی ہمیشہ عزت۔ احترام۔ معاشی ترقی کا حقیقی یادگار نقشہ۔ نیک۔ مثبت کاموں کے با عمل یادگار دور کا آغاز کر سکیں۔آمین۔