سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کے بعد بھی پی ٹی آئی مخصوص نشستوں کے حوالے سے کئی مسائل کا شکار
لاہور (خصوصی نامہ نگار) پی ٹی آئی کا سنی اتحاد کونسل سے اتحاد نئے قانونی مسائل کا شکار ہو کر رہ گیا۔ آئینی اور قانونی طور پر سنی اتحاد کونسل کو استحقاق نہیں کہ وہ الیکشن کمشن میں مخصوص نشستوں کی لسٹ 8 فروری کو انتخابات ہونے کے بعد جمع کرائے۔ تحریک انصاف کے 80 آزاد امیدواروں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر لی۔ ذرائع کے مطابق کہ سنی اتحاد کونسل کا اصل میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات میں ایک سیاسی جماعت کا امیدواروں کے لحاظ سے کیا کردار تھا؟ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ صاحبزادہ حامد رضا قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 104 فیصل آباد سے آزاد (پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ) امیدوار کی حیثیت سے انتخابی عمل کا حصہ بنے۔ ذرائع کے مطابق این اے 89 میانوالی سے سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمد سردار بہادر خان 371 ووٹ لے سکے۔ 2018ء کے جنر ل الیکشن میں سنی اتحاد کونسل کے 2 امیدوار این اے 95میانوالی سے محمد سردار بہادر خان 854 ووٹ جبکہ این اے 110 فیصل آباد 4 سے صاحبزادہ حامد رضا 5 ہزار85 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ اس انتخاب میں صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر بھی 2 امیدوار ضلع فیصل آباد سے پی پی 110 سے میں راشد محممود 169 جبکہ پی پی 113 سے صاحبزادہ محمد حسین رضا 709 ووٹ حاصل کر سکے تھے۔ 2013ء کے جنرل الیکشن میں قومی اسمبلی کی نشستوں پر سنی اتحادکونسل کا ایک بھی امیدوار میدان میں نہیں تھا۔ صوبائی اسمبلیوں کی بات کریں تو کل 22 امیدوار میدان میں تھے جن میں 14 پنجاب، سندھ سے 4، بلوچستا ن سے 4 تھے۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ آئینی اور قانونی طور پر سنی اتحاد کونسل کے پاس استحقاق موجود نہیں کہ وہ الیکشن کمشن آف پاکستان میں مخصوص نشستوں کی لسٹ 8 فروری 2024ء کو انتخابات ہونے کے بعد جمع کروائیں۔ قانونی ماہرین نے مزید کہا کہ چونکہ یہ معاملہ پشاور ہائی کورٹ میں چلا گیا ہے تو ہو سکتا ہے ان کو وہاں سے ریلیف مل جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو ممکن ہے کہ الیکشن کمشن آف پاکستان اس فیصلے کو سپریم کو رٹ میں چیلنج کر دے۔