بڑے چیلنج، حکومت کی کامیابی کا انحصار معاشی ٹیم کی کارکردگی پر ہو گا
اسلام آباد (عترت جعفری) نامزد وزیراعظم شہباز شریف نے ملک کے معاشی وسائل کا ذکر کرتے ہوئے روزگار، سرمایہ کاری بڑھانے، آئی ٹی سمیت ملک کی برآمدات میں اضافہ اور اچھی گورننس کے عزائم کو ظاہر کیا ہے۔ آئندہ ہفتے کے اختتام یا مارچ کے ابتدائی دنوں میں حکومت بھی بن جائے گی، اور نئی حکومت کو پہلے دن ہی سے فوری اور اہم فیصلے کرنے ہوں گے۔ وفاقی کابینہ کو ابتدائی ایام میں ہی مکمل کرنا پڑے گا۔ نئی حکومت کو فوری طور پر آئی ایم ایف کے ساتھ ریویو اور اس کے ساتھ ہی نئے پروگرام تین سے پانچ سالہ پروگرام پر بات کرنے کے لئے آئی ایم کی ٹیم کو دعوت دینا ہو گی۔ قرض پروگرام کی درخواست آئی ایم ایف کو دینا پڑے گی۔ پاکستان کی طرف سے نئے پروگرام کے خدو خال پر ابتدائی کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔ کابینہ کی اہم کمیٹیوں کی تشکیل بھی فوری کرنا پڑے گی اس میں ای سی سی، نجکاری کمیٹی، انرجی کمیٹی اور متعدد دوسری اہم کمیٹیاں شامل ہیں۔ نیشنل فنانس کمیشن کی تشکیل بھی کرنا ہوگی۔ ملک میں پانی کی تقسیم کا مسئلہ بھی موجود ہے۔ نئے واٹر ایکارڈ کا مطالبہ موجود ہے۔ ملک کے ذمہ اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ کم و بیش جی ڈی پی کے 100 فیصد کے مساوی ہو چکا ہے، جس میں کمی کی حکمت عملی تیار کرنا بھی ایک چیلنج ہے، ان قرضوں کے سود کی ادائیگی کی وجہ سے حکومت کے پاس مالی طور پر پاؤں پھیلانے کی کوئی گنجائش نہیں رہی ہے۔ کفایت شعاری کو اپنانا پڑے گا۔ عالمی مالیاتی ادارے پہلے ہی پاکستان کو کہہ رہے ہیں کہ سرکاری شعبے کے وفاقی ترقیاتی پروگرام چلانے کی گنجائش نہیں ہے، اس میں کمی بھی لائی جائے اور جو شعبے اب صوبوں کے پاس ہیں ان میں فائنانسنگ ختم کی جائے۔ ترقیاتی مقاصد کے لیے مالی وسائل پیدا کرنا ایک بڑا مسئلہ رہے گا۔ حکومت کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کی بنیاد پر اب بڑے منصوبے بنانے کی حکمت عملی بنانا پڑے گی۔ ملک کیلئے اکنامک مینجمنٹ ٹیم کا انتخاب ایک بہت بڑا ایشو ہے، جس کے سربراہی کے لیے سینیٹر اسحاق ڈار بہت مضبوط امیدوار ہیں، اس ٹیم کے ایک ممبر قیصر شیخ ہو سکتے ہیں جو نون لیگ کے نو منتخب رکن قومی اسمبلی ہیں اور اس سے قبل قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے خزانہ کے سربراہ کے طور پر کام کر چکے ہیں۔ حکومت کی کامیابی کا انحصار معاشی ٹیم کی کارکردگی پر ہوگا۔ روزگار، برآمدات بڑھانے، افراط زر میں کمی لانے کے لئے سیاسی عزم کے ساتھ ساتھ کاروبار کو آسان بنانے کے لیے اب حتمی اور لازمی اقدامات کرنا پڑیں گے۔ اس وقت نیٹ میں ٹیکس گزار بھاری ٹیکسوں کی زد میں ہیں۔ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر سپر ٹیکس اور دیگر ٹیکسوں کی بڑھتی ہوئی شرح کی وجہ سے پریشان ہے۔ کارپوریٹ سیکٹر کے لیے ٹیکس کی شرح 40 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہیں، ان میں کمی لانا چیلنج ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ بجلی اور گیس کے نرخ میں کمی لائے بغیر گروتھ اور برآمدات کے ہدف کو پورا نہیں کر سکتے۔ پاور سیکٹر اور اکنامک مینجمنٹ کے لیے قابل شخصیات کا چناؤ کرنا پڑے گا۔