ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخابات میں حصہ
الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ ایسے تمام کامیاب امیدوار جو دو یا دو سے زیادہ نشستوں پر کامیاب قرار پائے ہیں، ان کے لیے لازم ہے کہ وہ کوئی بھی ایک نشست اپنے پاس رکھ سکتے ہیں۔ اس حوالے سے امیدوار کو 30 دن کے اندر الیکشن کمیشن کو آگاہ کرتے ہوئے ایک کے علاوہ باقی نشستوں سے استعفیٰ دینا ہوتا ہے۔ آئین میں یہ گنجائش رکھی گئی ہے کہ کوئی بھی شخص ایک سے زیادہ سیٹوں پر الیکشن لڑ سکتا ہے، زیادہ سے زیادہ کی کوئی تعداد مقرر نہیں کی گئی۔ 8 فروری کو ہونے والے عام انتخابات میں بھی کئی امیدواروں کی طرف سے ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن میں حصہ لیا گیا۔ تین میں تو خیر کوئی ایک بھی نہیں البتہ دو سیٹوں پر کئی امیدوار کامیاب ٹھہرے۔ ایک سے زیادہ نشستوں پر حصہ دو ہی صورتوں میں لیا جاتا ہے، ایک تو امیدوار کو خدشہ ہوتا ہے کہ ایک نشست سے وہ ہارا تو پارلیمنٹ میں نہیں جا سکے گا، لہٰذا وہ احتیاط سے کام لیتے ہوئے ایک سے زیادہ جگہ سے کاغذات جمع کروا دیے جاتے ہیں ۔ ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنے کی ایک اور وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ لوگوں پر اپنی مقبولیت کا رعب ڈالا جائے۔ ایک سے زیادہ نشستوں پر الیکشن لڑنا کسی ایک شخص کی خواہش یا ضرورت تو ہوسکتی ہے لیکن یہ قومی اور عوامی منشاءو ضرورت ہرگز نہیں ہے۔ایک حلقے میں انتخابی اخراجات کروڑوں میں ہوتے ہیں۔ انتخابی مہم پر امیدواروں کے اخراجات الگ سے۔ علاوہ ازیں، عوام اپنا وقت اور توانائی اس کام پر خرچ کرتے ہیں۔ انتخابی عمل کی تکمیل کے لیے انتظامات کرنے والے اہلکاروں کو معاوضہ دیا جاتا ہے اور ان کا وقت بھی صرف ہوتا ہے۔یہ مشق ضمنی انتخاب کی صورت میں دہرائی جاتی ہے۔ جس ملک کی معیشت دگرگوں ہو اس ملک میں ایک سے زیادہ نشستوں پر انتخاب لڑنا عیاشی کے زمرے میں آتا ہے۔ ضرور ت اس امر کی ہے کہ ایک سے زیادہ نشستوں پر کسی امیدوار کے لیے الیکشن لڑنے کی کوئی حد مقرر کر دی جائے، اور دوسرا یہ کہ جو ایک سے زیادہ نشستوں پر کامیاب ہو جائے ،ایک نشست تو اس نے اپنے پاس رکھنی ہے، باقی پر ضمنی انتخابات کے سارے اخراجات اسی سے وصول کیے جائیں۔