مریم نواز کا نیا پنجاب
قارئین کرام میں پچھلے 35 سال سے کالم لکھ رہا ہوں لیکن گزشتہ پانچ سال سے میں نے کالم لکھنا چھوڑ دیا تھا اس کی کئی وجوہات تھیں لیکن آج محترمہ مریم نواز شریف کے وزیراعلی پنجاب کے انتخاب کے بعد میں نے یہ چپ کا روزہ توڑ دیا ہے اور آج میں ایک طویل عرصے کے بعد اپنی کالم نگاری کا پھر سے آغاز کر رہا ہوں ۔
پنجاب اسمبلی نے آج اپنی نئی وزیراعلی محترمہ مریم نواز شریف کو پنجاب کا وزیراعلی منتخب کر لیا ہے یہ پنجاب کی تاریخ کا ایک انتہائی اہم سنگ میل ہے صرف یہ کہہ دینا کہ محترمہ مریم نواز شریف پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعلی ہیں کافی نہیں ہے یہ بات اگرچہ صحیح ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کو ایک ایسا نیا حکمران مل رہا ہے جو پنجاب کی سیاست،تہذیب،روایات،معاشرت اورسماج کو ایک نئے آہنگ اور ڈھنگ سے متعارف کرائے گا موجودہ وقت میں پاکستان کا سب سے بڑا المیہ پاکستان کی سیاست میں تفریق،تقسیم اور پولرائزیشن کی انتہا ہے جو ہمارے سماج اور ریاست کے لئے انتہائی خطرناک ہے۔ میرے زمانہ طالبعلمی میںجب میں گارڈن کالج کا سٹوڈنٹ تھااس زمانے میں ہم روزانہ کی بنیاد پر ایوب خان کے خلاف جلسے جلوس نکالا کرتے تھے اور پوری قوم ایوب خان کی آمریت کے خلاف ایک پیج پر تھی۔
یکا یک سیاست میں ایک ایسا بھونچال آیا کہ اس وقت پاکستان کے اندر ایک دم تفریق پیدا کر دی گئی وہی تمام سٹوڈنٹس جو ایوب خان کے خلاف نعرے لگاتے تھے ایک دم تقسیم ہو گئے ایک طرف نعرے لگتے تھے ایشیا سرخ ہے اور دوسری طرف نعرے لگتے تھے ایشیا سبز ہے ۔
اور یہ تفریق اتنی بڑھی کہ اس بڑی پولرائزیشن کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا یا دو لخت کر دیا گیا۔آج کے دور کی تفریق کو جب میں دیکھتا ہوں تو مجھے اپنے اـس دور کی تفریق یاد آ جاتی ہے ۔سیاست کے عالمی انجینیئر جب بھی کسی ملک کو نقصان اور توڑ پھوڑ کا نشانہ بنانا چاہتے ہیںتواس ریاست کے اندر پولرائزیشن کو عروج پر لے جاتے ہیں اس کے نتیجے میں ان کا کام آسان ہو جاتا ہے ۔
آج محترمہ مریم نواز وزیراعلی پنجاب بن گئی ہیں توان کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ پنجاب کی تہذیب ، شائستگی، صبر، بردباری ،رواداری ،بھائی چارہ ،ملنساری اوربرداشت کے کلچر کو نئے سرے سے آگے بڑھائیں کیونکہ یہ روایات محترمہ مریم نواز شریف کو شریف خاندان سے ورثے میں ملی ہیں۔
مجھے محترم میاں نواز شریف کے کئی اوصاف کا ادراک ہے۔میری میاں نواز شریف صاحب سے پہلی ملاقات1988 سانحہ اوجھڑی کیمپ کے بعد مرحوم خاقان عباسی کی رہائشگاہ پر ہوئی تھی۔جو اوجھڑی کیمپ کے سانحے کا شکار ہو کر شہید ہوگئے تھے۔ اس موقع پر میں نے ان سے گزارش کی کہ میں اسلام آباد میں خاقان عباسی صاحب کی یاد میں ایک ریفرنس کرنا چاہتا ہوں اور میری خواہش ہے کہ آپ اس میں بطور مہمان خصوصی تشریف لائیں تو اس وقت میاں صاحب نے جس طرح میرے ساتھ کھڑے ہو کر میرے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھا اور کافی دیر تک مجھ سے باتیں کرتے رہے وہ تاثر وہ محبت وہ شفقت مجھے آج تک یاد ہے ۔
جنرل(ر) عبدالقیوم جن کا تعلق میرے ضلع چکوال سے ہے اور وہ زندگی کے اکثر معاملات میں مجھ سے مشاورت کرتے رہتے ہیں۔ فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد جب انہوں نے کسی سیاسی جماعت میں شامل ہونے کیلئے مجھ سے مشورہ کیاتو میں نے انہیں مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنے کا مشورہ دیا۔ کچھ دنوں بعد جب میری ان سے ملاقات ہوئی اور میں نے پوچھا کہ آپ نے کیا فیصلہ کیا ہے وہ مجھ سے کہنے لگے کہ مجھ سے کوئی فیصلہ نہیں ہو رہا آپ بتائیںتو میں نے ان کو مشورہ دیا کہ آپ میاں نواز شریف اور عمران خان دونوں سے ملاقات کریں اوراس کے بعد اپنا فیصلہ کرلیں۔آپ کو فیصلے میں آسانی ہوگی انہوں نے ایسا ہی کیا ۔دونوں رہنماؤں سے ملاقات کی اور اس کے بعد انہوں نے مسلم لیگ نون میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا۔
جب میں نے جنرل عبدالقیوم سے پوچھا کہ جنرل صاحب آپ نے یہ فیصلہ کیسے کیا تو انہوں نے کہا کہ میں دونوں پارٹی سربراہان سے ملا
میری جب ملاقات عمران خان کے ساتھ ہوئی توملاقات کے دوران انہوں نے مجھے کوئی خاص توجہ نہ دی مگر جب میں میاں صاحب سے ملا انہوں نے مجھے خصوصی طور پر کھانے پہ بلایا جب میں ان کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا تو میں ان کی مہمان نوازی پہ حیران ہو رہا تھا وہ کبھی مجھے کہتے کہ جنرل صاحب یہ لیں کبھی کہتے یہ کھائیں اکثر میری پلیٹ میں ڈونگے سے کھانا ڈال کر دے رہے تھے اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ اس شخص کے اندر میرے لیے محبت ہے پیار ہے مجھے احترام اور اہمیت دے رہے ہیںاور یوں میں نے مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا فیصلہ کرلیا۔
میاں صاحب کا مخصوص انداز ہے لوگوں سے گرم جوشی سے ملنا، گلے لگانا، ہاتھ ملانا ، ہاتھ پکڑنا اور کافی دیر گرم جوشی کے جذبات کا اظہار کرنا
میں نے آپ کو یہ دو مثالیں جو دی ہیں مریم نواز اسی روایت کی امین ہے خاتون ہونے کے ناطے مریم نواز شاید اس گرم جوشی سے تو لوگوں سے نہ مل سکیں جیسے میاں صاحب ملتے ہیںلیکن ایک بات ضرور ہے کہ ہماری جو مہمان نوازی کی روایت ہے جس کی ہمارے معاشرے میں بڑی اہمیت ہے اس کو بڑھاوا دے سکتی ہیں۔
ایک اور سینیئر اور زیرک سیاست دان چوہدری شجاعت حسین ہماری ملکی سیاست کا ایک محترم نام ہیں۔آپ کسی بھی سیاسی نظریے سے وابستہ ہوں آپ کی کوئی بھی سیاسی جماعت ہو ان کا احترام ہر شخص کرتا ہے ۔میں سمجھتا ہوں وہ آج کے عہد کے نوابزادہ نصراللہ خان ہیں۔ان کی بہت ساری باتوں میں طرہء امتیاز ان کی مہمان نوازی ہے ان کا دسترخوان پاکستان کا سب سے وسیع دسترخوان ہے جو لاہور اور اسلام اباد دونوں جگہوں پر ہے و ہ جب بھی کھانے کی میز پر بیٹھتے ہیں تو ان کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ساتھ ان کے دوست احباب، صحافی، سیاستدان بیٹھے ہوںمیں سمجھتا ہوں محترمہ مریم نواز کو میاں نواز شریف کی مہمان نوازی اور چوہدری شجاعت حسین کی طرح شریف خاندان کے دسترخوان کو ضرورآگے بڑھانا چاہیے۔
اسی مہمان نوازی کی روایت کے ذریعے آپ لوگوں کے دلوں میں اپنی جگہ بناتے ہیں، محبت بڑھاتے ہیں اور اس طریقے سے آپ اپنی سیاست میں ایک خصوصی حلقہ اثر بھی بناتے ہیں۔ایک خاتون اور روایت پسند خاندانی پس منظر ہونے کی وجہ سے شاید وہ اس طرح کی مہمان نوازی کو آگے نہ بڑھا سکیںلیکن انہیں شریف خاندان کی ا س روایت کو قائم رکھنا ہوگا تبھی وہ میاں نواز شریف کی طرح اپنا ایک خصوصی محبت کرنے والا گروپ بنا سکیں گی۔
پنجاب میں ملک غلام مصطفی کھر کے بعد کسی بھی جماعت کے سربراہ نے کسی مضبوط اور اہم شخص کو پنجاب میں اقتدار اعلی پر براجمان نہیں ہونے دیا اوراسے اپنے مستقبل کیلئے خطرہ سمجھا۔زوالفقار علی بھٹو شہید نے مصطفی کھر کے بعد حنیف رامے، میاں نواز شریف صاحب نے غلام حیدر وائیں، محترمہ بے نظیر بھٹو نے سردار عارف نکئی اور عمران خان نے عثمان بزدار کو پنجاب کا وزیر اعلی مقرر کیا۔ ان سب فیصلوں میں مضبوط کی بجائے کمزور حکمران کا انتخاب تھا۔ جس کا پنجاب کو نقصان ہوا۔محترم نواز شریف اور محتر م شہباز شریف وزیر اعلی پنجاب بننے کے بعد پاکستان کے وزیر اعظم بنے اور اب یقینا محترمہ مریم نواز صاحبہ بھی اپنی وزارت اعلی کو احسن طریقے سے سر انجام دینے کے بعد پاکستان کی وزیر اعظم بن سکتی ہیں۔
محترمہ مریم نواز شریف محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کی طرح طلسماتی شخصیت کی مالک ہیں۔ان کی شخصیت کا جادو لوگوں کو بڑی تعداد میںجلسے اور جلوس کی طرف امڈ آنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ اپنی اس طاقت سے لوگوں کے دلوں اور ذہنوں پرحکمرانی کرنے کے ساتھ ساتھ انکو ایک سمت کی طرف راغب بھی کر سکتی ہیں۔اس وقت پاکستان میں نوجوانوں کی آبادی 60فیصد اور خواتین آبادی کا 52فیصد ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ خواتین اور نوجوان پاکستان کی آبادی کا تقریبا 85فیصد ہیں اور اگر محترمہ مریم نواز شریف پنجاب میں خصوصی توجہ دیکر خواتین اور نوجوانوںکو ایک درست سمت دینے میں کامیاب ہو گئیں اور تقسیم اور تفریق کو ختم کردیا تو پاکستان کے مستقبل کو ہمیشہ کیلئے محفوظ کر دیں گی۔
محترمہ مریم نواز مضبوط اور آہنی اعصاب کے ساتھ سخت گیر مزاج کی بھی حامل ہیں جسے پنجاب میںجرائم کے خاتمے،چوروں اورڈاکووٗں کی بیخ کنی کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے اور پنجاب کو ایک محفوظ اور پر امن ماحول دے کر سرمایہ کاری کا گہوارہ بنایا جا سکتا ہے۔ محترمہ کو جرائم پیشہ افراد کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نپٹنا ہوگا۔کیونکہ ملک کے اندر جرم ہو اور مجرم کو سزا نہ ملے تو جرم بڑھتا رہتا ہے اس پر انہیں خاص توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ مجرمان کیفر کردار تک پہنچیں اور جرائم کا خاتمہ بھی ہو ۔
اس کے ساتھ ساتھ انہیں عوام کی سہولت کے لیے تعلیم اور صحت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی اور میں اس پر یہ مشورہ دوں گا کہ اس وقت جو سرکاری سکولز ہیں ان کے معیار کوبہتر کرنے کی ضرورت ہے وہ کوشش کریں کہ سرکاری سکولز کے لیول کو بہتر کرنے کے لیے سرکاری افسران سے کہیں کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھائیں اگر وہ اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں پڑھانا شروع کریں گے تو سکولوں کا معیار خود بخود بہتر ہو جائے گا اسی طرح سرکاری ہسپتالوں کے معیار کو بہتر کرنے کے لیے ہسپتالوں کے اندر کے ماحول کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے جس طرح فوجی ہسپتالوں کے اندر ڈاکٹرز اپنے ہسپتال کے اندر ہی پریکٹس کرتے ہیں تو اگر یہ قانون پنجاب میں بھی بنا دیا جائے کہ ڈاکٹر اپنی پرائیویٹ پریکٹس بھی اسی ہسپتال کے اندر ہی کریں بیشک وہی فیس لیں جو وہ باہر لیتے ہیں اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک توڈاکٹر کی ہسپتال میں موجودگی رہے گی اس کے ساتھ ساتھ ہسپتال،مشینری اور لیبارٹری بھی بہتر ہوجائے گی۔
پنجاب کابینہ کا انتخاب محترمہ مریم نواز شریف کا پہلا امتحان ہوگا جس میںپورا اترنے کیلئے متحرک ،فعال،دیانتدار، قومی سوچ اور خدمت سے مامور افراد کا انتخاب کرنا ہوگا۔یقینا یہی کابینہ اور یہی ٹیم انکے آئندہ کا وزیر اعظم بننے میں انکی معاون ثابت ہوگی۔