• news

صدر نے غیر آئینی اقدام کیا، 2 مقدمات ہونگے: اسحاق ڈار، بلاول بھٹو

اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ نمائندہ خصوصی+ خبر نگار+نمائندہ نوائے وقت) نگران وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کیلئے بھیجی گئی سمری پر صدر کے اعتراضات کا جواب دے دیا۔ حکومتی ذرائع کے مطابق نگران حکومت نے کہا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 91 میں کہیں نہیں لکھا کہ ایوان نامکمل ہو تو اجلاس نہیں بلایا جا سکتا۔ صدر کی صوابدید اور استحقاق ہے ہی نہیں کہ آرٹیکل 91 کے تحت اجلاس روک سکیں۔ صدر صرف آرٹیکل 54  کے تحت معمول کے اجلاس کو روک سکتے ہیں، یہ معمول کا نہیں غیر معمولی اجلاس آئینی تقاضا ہے۔ نگران حکومت نے صدر کو خط میں لکھا ہے کہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ مخصوص نشستیں نہ ہوں تو اجلاس نہیں ہو سکتا۔ نگران وفاقی حکومت نے صدر کو فیصلے پر نظرثانی کی درخواست کی ہے کہ صدر مملکت آئین کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کریں۔ آرٹیکل 91 کی شق 2 کے تحت الیکشن کے 21 ویں دن اجلاس بلانا ضروری ہے۔ صدر نے 29 فروری کو اجلاس نہ بلایا تو بھی اجلاس اسی دن ہو گا۔ دریں اثناء سابق وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ صدر کے پاس قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار اب نہیں رہا۔ سینیٹر اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ آئین سے کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ صدر علوی قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلا کر ایک بار پھر آئین شکنی کررہے ہیں۔ آئین کا آرٹیکل بڑا واضح ہے کہ 21 روز میں اسمبلی اجلاس طلب کیا جائے لیکن صدر نے اعتراض لگا کر سمری واپس کردی کہ ابھی ہاؤس مکمل نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہاؤس مکمل تب ہوتا ہے جب ممبرز کا نوٹیفکیشن ہوچکا ہو۔ جب نوٹیفکیشن ہی نہیں ہوا تو ہاؤس کے نامکمل ہونے کا کیا جواز ہے۔ سپیکر نے ممبرز سے حلف لینا ہے، صدر کو چاہیے تھا باعزت طریقہ سے اجلاس سمن کرتے۔ 21 دن بعد صدر کے پاس قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کا اختیار اب نہیں رہا۔ قومی اسمبلی کا اجلاس خودبخود 29 فروری کو ہوگا۔ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے لئے پانچ روز کا وقت ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے صدر صاحب اجلاس بلائیں اس سے ان کا اچھا تاثر جائے گا۔ وفاقی حکومت نے صدر کو ان کے اعتراضات پر جواب بھجوا دیا ہے۔ چند دن پہلے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان جو طے ہوا تھا یہ اس کا تسلسل ہے، ہم قومی اسمبلی اور بلوچستان کا ملکر فیصلہ کریں گے۔ ہم ملکر قومی اسمبلی میں سپیکر و ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کریں گے، معاہدہ ہوچکا ہے۔ اسحاق ڈار نے کہا کہ بلوچستان اسمبلی میں بھی آج حلف برداری کے بعد پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن ملکر وزیر اعلی اور دیگر عہدیداروں کا فیصلہ کرے گی، ہم چاہتے ہیں جے یو آئی سمیت سب کو ساتھ لیکر چلیں، مسائل اتنے گہرے ہیں کہ ہم سب ملکر کوشش کریں گے تو ان سے نکل سکیں گے۔ آج مسلم لیگ ن کی پارلیمانی پارٹی کا اجلاس ہے جس میں اہم فیصلے ہوں گے۔ نواز شریف اس اجلاس کی شہباز شریف کے ساتھ صدارت کریں گے۔ اجلاس کے بعد نواز شریف کی کچھ اپنی مصروفیات ہیں ، وہاں چلے جائیں گے، شہباز شریف کل رات اتحادیوں کو عشائیہ دیں گے۔ علاوہ ازیں مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحاق ڈار کی زیرصدارت ان کے چیبمر میں اجلاس ہوا۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنما شریک ہوئے۔ اجلاس میں وفاق میں حکومت سازی کا مجوزہ شیڈول تیار کیا گیا۔ اجلاس میں حکومت سازی کے تمام مراحل مکمل کرنے کی منصوبہ بندی مکمل کی۔ اپوزیشن کے ممکنہ احتجاج کیخلاف حکمت عملی بھی طے کی گئی۔ مجوزہ شیڈول کے مطابق 29 فروری کو ارکان حلف اٹھائیں گے۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف ارکان سے حلف لیں گے۔ یکم مارچ کو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے کاغذات نامزدگی جمع ہوں گے۔ دو مارچ کو سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب خفیہ رائے شماری سے ہو گا۔ قائد ایوان کے انتخاب کیلئے کاغذات نامزدگی 3 مارچ کو جمع کئے جائیں گے۔ چار مارچ کو قومی اسمبلی نئے وزیراعظم کا انتخاب کرے گی۔ شہباز شریف کو وزیراعظم بننے کیلئے 169 ووٹ درکار ہیں۔ اس وقت مسلم لیگ اور اتحادیوں کو 200 سے زائد ارکان کی حمایت حاصل ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ عارف علوی پر دو مقدمات ہوں گے، ان پر ایک مقدمہ عدم اعتماد کے وقت اسمبلی توڑنے کا ہوگا اور دوسرا مقدمہ آئین کے مطابق قومی اسمبلی اجلاس نہ بلانے کا ہوگا۔ سپریم کورٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلزپارٹی کا مؤقف ہے کہ ادارے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں، سیاستدانوں کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم اپنے دائرے میں رہ کر سیاست کریں، انہیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ایک دوسرے کی عزت کریں، سیاستدان ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو امید نہ رکھیں کہ کوئی ادارہ کرے گا، اگر ایسا ہی رہا تو اگلی تین نسلوں تک بھی یہی تماشہ چلتا رہے گا۔ صدارت عارف علوی کے بس کی بات نہیں، مواخذے کے بجائے انتخابی عمل کے ذریعے عارف علوی کی جگہ دوسرا صدر لائیں گے۔ شروع تو وہاں سے ہوں گے کہ علوی صاحب نے آئین توڑا، عارف علوی آئین کو توڑتے ہوئے اپنا فرض نہیں نبھا رہے، صدر آئینی ذمہ داری پوری نہیں کرتے تو سپیکر پوری کردیں گے کیونکہ آئین میں لکھا ہے ہر حال میں 29 فروری کو اسمبلی اجلاس بلاناہے۔  ہم نے فیصلہ کیا جو ہمارے پاس ووٹ مانگنے آئے ہم نے دیا۔ سنی اتحاد کونسل ہمارے پاس ووٹ مانگنے نہیں آئے تو کسی اور کی حکومت پر اعتراض کیسا۔ ہمارے پاس یہی آپشن ہے جو بات کررہے ہیں ان کو موقع دیں۔ میں نے کہا تھا وزیراعظم بنا تو سیاسی قیدیوں کو رہا کریں گے  لیکن افسوس پاکستان کے عوام نے مجھے وہ مینڈیٹ نہیں دیا۔ بلاول کا کہنا تھا کہ صدر منتخب ہوکر آصف زرداری اپنے گورنر خود فائنل کریں گے۔ پیپلز پارٹی اپنے بارے میں سوچتی تو پتا نہیں کیا کیا کر دیتے۔ میں حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، میرے نمبر ایسے نہیں۔ ہم سنی اتحاد کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے مریم نواز اور مراد علی شاہ کی مخالفت نہیں کی۔  سنی اتحاد اور پی ٹی آئی کے شکرگزار ہونا چاہیے۔ شہباز شریف بھی بلامقابلہ وزیراعظم بننے جارہے ہیں۔ چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ اپنی غلطیوں سے سیکھ کر آگے کا لائحہ عمل طے کیا۔ مگر پی ٹی آئی نہ اپنی غلطی تسلیم کرتی ہے، آئین کو مانتی ہے اور نہ جمہوریت کو۔ ہم انسان ہیں، انسان سے غلطیاں ہوتی ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ غلطیاں اس شخص نے کیں جو اڈیالہ جیل میں ہے۔ تمام عدالتی معاونین کا اتفاق ہے کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا گیا‘ زرداری صدر بننے کے بعد گورنرز کے نام شارٹ لسٹ کریں گے۔ دریں اثناء رہنما پی ٹی آئی شیر افضل مروت نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ جہاں تک میں سمجھتا ہوں‘ ہم اسمبلی کے اندر احتجاج کریں۔ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ 29 فروری فروری کو حلف کیلئے اسمبلی اجلاس میں جائیں گے۔ ہمیں الیکشن کمشن سے رتی برابر توقع نہیں ہے۔ پارلیمانی پارٹی نے ابھی بائیکاٹ کا فیصلہ نہیں کیا۔ انتخابی عذرداریوں کا دارو مدار ٹریبونل کے جج صاحبان پر ہے۔ توقع ہے آج الیکشن کمشن واضح کر دے گا۔ ہماری درخواست منظور یا مسترد کر دے۔ ہمارا مقصد شراکت اقتدار کبھی نہیں رہا ہے، جس نظام میں یہ ملک جکڑا ہوا ہے اس سے آزادی کی ضرورت ہے۔ ہمارے کیس ٹربیونل بھیج رہے ہیں‘ ن لیگ کے نوٹیفکیشن جاری کر رہے ہیں۔ مریم نواز الیکشن ہار گئی تھیں اس کے باوجود وزیراعلیٰ بن گئی ہیں۔  بیرسٹر گوہر ہی پارٹی چیئرمین ہوں گے۔ ہمارے درمیان کوئی ناراضگی تھی ہی نہیں۔ وہ پارٹی چیئرمین کا الیکشن لڑتے ہیں تو میرا ووٹ انہی کو جائے گا۔ پیپلز پارٹی کی شراکت اقتدار کی پیش کش کو بانی پی ٹی آئی نے مسترد کر دیا۔ میرا خیال ہے احتجاج کے معاملے میں لوگ ابھی تک ڈرے ہوئے ہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ ریاستی کریک ڈاؤن کا تسلسل ہو گا۔ الیکشن کمشن ابتدا سے ہمارے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کر رہا ہے۔ اسلام آباد میں بانی پی ٹی آئی کی کال پر لوگ نکلے تھے۔ علاوہ ازیں کہا جا رہا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 29  فروری کو ہوگا۔ مگر  اس کے منعقد ہونے کا قانونی جواز  ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے تا حال نہ ایوان صدر نے فراہم کیا ہے نہ سپیکر آفس یا قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ نے اس کا کوئی نوٹیفکیشن جاری کیا ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اس وقت تک کسی بھی جانب سے کوئی ایسا نوٹیفکیشن فیلڈ میں موجود نہیں جس میں کہا گیا ہو کہ قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری کو ہوگا۔ قومی اسمبلی کے اجلاس کے 29 فروری کو ہونے کے بارے میں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی جانب سے کہا جا رہا ہے  اور نگران حکومت  اور، قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ذرائع سے یہ خبریں سامنے آئیں کہ قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو  ہوگا، ان طلاعات میں آئینی شق کے بارے  بتایا گیا جس کے  تحت الیکشن کے بعد  21روز  کے اندر اجلاس ضروری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون کے مرکزی رہنماؤں نے  گذشتہ روز میڈیا سے بات چیت کی اور صدر مملکت پر آئین کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا۔ اس اثنا میں یہ  اطلاع  بھی سامنے  آئی  کہ نگران وفاقی حکومت نے ایوان   صدر  کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے بارے میں اس کے اعترضات کا جواب دیا ہے۔ نگران حکومت کا موقف ہے کہ21 روز میں اجلاس ہونا چاہئے۔ اس  صورتحال میں ایک چیز جو بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے مستقبل کا فیصلہ بہرحال ایک اہم معاملہ بن چکا  ہے، ممکنہ  طور پر اس کے بارے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان کے فیصلے کا انتظار کیا جا رہا ہے، اس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد صورتحال حقیقی طور پر واضح ہوگی، اس سارے معاملہ میں اب تک  ایوان صدر کی طرف سے  حکومتی سمری کو مسترد کرنے کی کوئی اطلاع میڈیا کو نہیں دی گئی، ایوان صدر  کے اعتراض کی خبریں  ذرائع ہی سے سامنے  آئیں۔ سینیٹر علی ظفر نے میڈیا کو بتایا  کہ صدر نے ایک خط حکومت کو لکھا تھا۔ ذرائع کا  کہنا ہے کہ  وفاقی حکومت نے سمری پر صدر کے خط میں اٹھائے  گئے  اعتراضات  کے جواب میں کہا کہ   کہ آئین کے آرٹیکل اکانوے  میں کہیں نہیں لکھا کہ ایوان نامکمل ہو تو اجلاس نہیں بلایا جاسکتا۔ صدر صرف آرٹیکل 54 کے تحت معمول کے اجلاس کو روک سکتے ہیں۔ نگران وفاقی حکومت نے صدر کو فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی ۔  صدر نے 29 فروری کو اجلاس نہ بلایا تو بھی اجلاس اسی دن ہوگا۔

ای پیپر-دی نیشن