پنجاب کی خاتون وزیر اعلیٰ
پنجاب آدھے سے زیادہ پاکستان ہے۔ تینوں صوبوں کی قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 122ہیں جس میں سندھ کی 61،خیبر پختون خواہ کی 45 اوربلوچستان کی 16 نشستیں شامل ہیں اور اکیلے پنجاب کی قومی اسمبلی کی 141 جنرل نشستیں ہیں۔ اسی طرح پورے ملک کی 60 قومی اسمبلی کی مخصوص نشستیں ہیں جن میں تینوں صوبوں کی ملا کر 28 نشستیں بنتی ہیں اور اکیلے پنجاب کے حصے میں 32 نشستیں آتی ہیں۔ اس طرح اگر کوئی سیاسی جماعت پورے ملک سے ایک بھی نشست حاصل نہ کرے صرف پنجاب سے لینڈ سلائیڈ وکٹری حاصل کر لے تو وہ تن تنہا وفاق میں حکومت بنا سکتی ہے۔ مسلم لیگ ن کو موجودہ انتخابات میں باقی صوبوں میں ٹوکن کے طور پر کامیابی حاصل ہوئی ہے لیکن پنجاب کے بل بوتے پر وہ مرکز میں حکومت بنا رہی ہے۔ اسی طرح پنجاب اسمبلی پاکستان کا عددی اعتبار سے سب سے بڑا ایوان ہے۔ پنجاب کی وزارت اعلی اختیارات کے لحاظ سے کسی صورت وزارت عظمی سے کم نہیں۔ شریف فیملی نے ہمیشہ پنجاب کی سیاست کو فوکس رکھا ہے۔ شریف فیملی اس حوالے سے بھی منفرد اعزاز رکھتی ہے کہ اس خاندان کے متعدد افراد پاکستان کے سب سے زیادہ عرصہ تک حکمران رہے ہیں اور بدستور حکمرانی انجوائے کر رہے ہیں۔ شریف فیملی بزنس کرتی تھی میاں شریف مرحوم کے بڑے بیٹے میاں نواز شریف کو سیاست کا شوق تھا۔ انھوں نے کونسلر کا الیکشن لڑا تحریک استقلال میں قسمت آزمائی کی لیکن کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ پھر جنرل ضیاالحق کے دور میں شریف فیملی نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ راہ ورسم بڑھائی اور میاں نواز شریف پنجاب کے وزیر خزانہ بننے میں کامیاب ہو گئے۔ اسکے بعد پاکستان کی سیاست میں شریف فیملی لازم وملزوم ہو کر رہ گئی۔ میاں نواز شریف 2بار پنجاب کے وزیر اعلیٰ بنے ایک بار نگران وزیر اعلیٰ رہے تین بار وزیر اعظم بنے ان کے بھائی میاں شہباز شریف تین بار وزیر اعلی پنجاب اور دوسری مرتبہ وزیر اعظم بننے جا رہے ہیں۔ ان کے بھائی عباس شریف مرحوم بھی رکن قومی اسمبلی رہے۔ ان کی اہلیہ بیگم کلثوم نواز بھی رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئیں ان کے بھتیجے حمزہ شہباز متعدد بار رکن قومی وصوبائی اسمبلی منتخب ہوئے۔ وہ کچھ عرصہ کے لیے وزیر اعلی پنجاب بھی منتخب ہوئے لیکن وہ باقی فیملی ممبرز کی طرح کوئی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ نہ کر سکے اور ہاتھ آیا اقتدار نہ سنبھال پائے ان کے سمدھی اسحاق ڈار متعدد بار پاکستان کے وزیر خزانہ رہیاورشاید ایک بار پھر وزیر خزانہ بنائے جا رہے ہیں۔ میاں نواز شریف کی بیٹی مریم نواز پہلی بار الیکشن لڑکر پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی وزیر اعلی بن چکی ہیں شریف خاندان پاکستان کا سب سے زیادہ تجربہ کار حکمران خاندان ہے مریم نواز کی حلف برداری کی تقریب میں میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف اور حمزہ شہباز بھی موجود تھے اور شاید تاثر یہ دیا جا رہا تھا کہ ہم سب مل کر مریم کو کامیاب بنائیں گے مریم کی کامیابی کے لیے مریم اورنگزیب، پرویز رشید اور دیگر کی ٹیم پنجاب میں اتار دی گئی ہے پنجاب اسمبلی کا محاذ سپیکر ملک احمد خاں کے سپرد کر دیا ہے جو کہ خود آئینی وقانونی ماہر ہیں۔ سیاست کے جوڑ توڑ کو بخوبی سمجھتے ہیں انھیں اپوزیشن کی جارحیت کو مدنظر رکھتے ہوئے سپیکر کی ذمہ داریاں سونپی گئی ہے۔ دراصل شریف فیملی سمجھتی ہے کہ موجودہ انتخابات میں ان کی جماعت کو پہلی دفعہ سنجیدہ خطرات کا سامنا کرنا پڑا ہے پنجاب جسے وہ اپنی سیاست کا قلعہ سمجھتے تھے وہاں خوفناک دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ ان کی سیاست ہچکولے کھا رہی ہے اور اگر انھوں نے پنجاب کو قابو نہ کیا تو مستقبل کی سیاست ان کے ہاتھ سے نکل جائے گی اس کے لیے شریف فیملی سر دھڑ کی بازی لگانے کے لیے تیار ہے اس بار انھوں نے مریم نواز کو نئی قیادت کے طور پر میدان میں اتارا ہے میاں نواز شریف نے مریم نواز کو اپنا سیاسی جانشین نامزد کر دیا ہے انھوں نے پنجاب کی سیاست میں کس طرح بالا دستی حاصل کرنی ہے اس کا ہوم ورک بھی کر رکھا ہے وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ان کی سیاسی بقا پنجاب کو قابو کرنے میں ہے اس لیے مریم نواز ڈیلیور کرنے کی پوری کوشش کریں گی کہ جہاں انھیں پنجاب کو فتح کرنے کے لیے اداروں کی مکمل سپورٹ حاصل ہے وہیں انھیں خوفناک اپوزیشن کا بھی سامنا ہے اور انتظامی سے زیادہ انھیں سیاسی خطرات کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ نہ اسمبلی میں اپوزیشن کوئی بات سننے کو تیار ہے اور نہ عوام کوئی بات سننا چاہتے ہیں عوام فوری ریلیف کا تقاضہ کر رہے ہیں اور جب تک عوام کو عملی طور پر ریلیف مل نہیں جاتا عوام کسی صورت مریم کی بات نہیں سنیں گے مریم نواز کو نہ صرف پولیس، بیوروکریسی اور پٹوار کلچر کو نکیل ڈالنی پڑے گی بلکہ عوام کے دل میں بھی جگہ بنانی ہو گی خاص طور پر یوتھ تو کوئی بات سننے کے لیے تیار ہی نہیں۔ اگر مریم نواز نے پنجاب کے عوام کو بغیر رشوت سفارش جائز کام میرٹ پر کروانے کا ماحول میسر کر دیا تو عوام مہنگائی کا آدھا غم بھول جائیں گے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز نے اپنی حکومت کی ترجیحات بیان کرتے ہوئے جہاں بہت کچھ کر گزرنے کا اعادہ کیا ہے وہاں مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی بھی بات کی ہے انھیں چاہیے کہ چچا کی حکومت آنے سے پہلے نگران وفاقی حکومت کے خلاف 7روپے 5پیسے فی یونٹ بجلی مہنگی کرنے پر بھرپور احتجاج کریں تاکہ عوام کو باور کروایا جا سکے کہ مریم عوام کے ساتھ کھڑی ہیں اور شاید ان کو مہنگائی کے خلاف احتجاج کرنے کا دوبارہ موقع نہ مل سکے کیونکہ چند روز بعد چچا کی حکومت بن جائے گی تو وہ چچا کی حکومت کے خلاف تو احتجاج نہیں کر پائیں گی اس لیے انھیں موقع غنیمت جانتے ہوئے مینار پاکستان پر احتجاجی کیمپ بھی لگانا چاہیے اور وفاق سے بجلی مہنگی کرنے پر پنجاب کی طرف سے احتجاج بھی کرنا چاہیے پٹرول کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کی واپسی کا بھی تقاضہ کرنا چاہیے اور ایک خاتون ہونے کے ناطے پنجاب کی خواتین کا دل موہ لینے کے لیے گیس کی فراہمی کو یقینی بنوائیں اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ واپس کروائیں۔