بدھ‘ 17 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 28 فروری 2024ء
اچھرہ میں عربی رسم الخط کے ڈیزائن والا لباس پہننے والی خاتون پر حملہ۔
جس معاشرے میں علم کی کمی ہو وہاں جہالت کو پنپنے کا خوب موقع ملتا ہے۔ اب یہی دیکھ لیں عربی کے تقدس کی وجہ سے اس کی خطاطی پر مبنی ڈیزائن کو ناخواندہ لوگ آیتِ قرانی سمجھ لیتے ہیں جبکہ سب اہل علم جانتے ہیں کہ سب عربی عبارت آیات نہیں ہوتیں۔ عام لوگ اگر عربی شاعری کا مطالعہ کریں تو وہ قدیم اردو شاعری کے رموز عشق، قصہ شوق قسم کی عامیانہ کہلانیوالی شاعری کو بھول کر عربی عشقیہ شاعری کا اردو ترجمہ پڑھنے اور سننے کو ترجیح دیں گے۔ مگر ہمارے ہاں ناخواندہ افراد کو عربی رسم الخط میں بھی یہی لگتا ہے کہ مقدس عبارت لکھی ہوئی ہے خواہ وہاں عربی کے عامیانہ شعر ہی کیوں درج نہ ہوں۔ اب اس خاتون نے جو عربی رسم الخط میں لکھے الفاظ کے ڈیزائن والا لباس پہنا جو ظاہر ہے اچھے خاصے مہنگے برانڈ نے ہی لانچ کیا ہو گا۔ اب یہ خاتون اچھرہ میں شاپنگ کے لیے کیا آئی اس پر افتاد ٹوٹ پڑی نجانے کس نے لوگوں کو کہا کہ نعوذ باللہ اس نے مقدس الفاظ والا لباس پہنا ہے جو توہین کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے بعد آئو دیکھا نہ تائولوگ نعرے لگاتے ہوئے خاتون کی طرف بڑھے یہ تو شکر ہے کچھ لوگوں اور پولیس اہلکاروں نے نہایت مہارت سے اسے بچا لیا اس سلسلے میں خاتون اے ایس پی نے جس جرات کا مظاہرہ کیا وہ قابلِ تعریف ہے۔ اب پولیس کو چاہیئے کہ وہ ان افراد کی نشاندہی کرے جنہوں نے لباس کو دیکھ کر لوگوں کو اشتعال دلایا۔ لباس پر لکھا لفظ ’’حلوہ‘‘ ہی دیکھ لیں۔ عام آدمی کے نزدیک کھانے والا حلوہ ہو گا۔ عربی میں محبت خوبصورتی کا معنیٰ ہوتا ہے۔ حلاوت بھی ایسا ہی ہے مگر نجانے کیوں حلوہ کو بھی مقدس جان کر لباس پہننے والی کی جان کے درپے یہ ناخواندہ ہجوم بے قابو ہو گیا۔ ایسے جذباتی لوگوں کو خدا ہی ہدایت دے یا سخت قانون سے انہیں قابو میں لایا جائے۔ ورنہ حالات کہیں بھی خراب ہو سکتے ہیں ہمارے ہاں تو اچھے بھلے مسلمانوں کو بھی اسی طرح کے جذباتی ہجوم موت کے گھاٹ اتارچکے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ریحام خان کا پنجابی فلم ’’چیمہ چٹھہ اور باجوہ‘‘ بنانے کا اعلان۔
کپتان کی سابق اہلیہ ریحام خان پہلے بھی فلم بنا چکی ہیں اب پھر وہ فلم بنانے کی تیاریوں میں ہیں۔ نام سے تو یہ فلم خاصی چٹ پٹی معلوم ہوتی ہے۔ اوپر سے بنائی بھی پنجابی میں جا رہی ہے۔ جس کے ذومعنی جملے ویسے ہی بڑے کاٹ دار ہوتے ہیں۔ اگر اداکار جاندار ہوں گے، ڈائیلاگ برجستہ ہوں گے تو فلم بھی زبردست ہو سکتی ہے۔ ہمارے ہاں پنجابی زبان کے بڑے بڑے جگت باز موجود ہیں۔ سکھ تک ہماری جگت بازی کے معترف ہیں حالانکہ خود سکھ زبردست پنجابی جملے بولنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر گالی گلوچ میں تو ان کا ثانی کوئی نہیں۔ ہم پاکستانی تو پھر بھی اخلاق کے دائرے میں رہنے کے عادی ہیں ورنہ جوڑ تو ہمارا بھی کوئی نہیں۔ مگر جو جملہ بازی سکھ کرتے ہیں وہ سن کر تو کان کی لو تک سرخ ہو جاتی ہے۔ کسی کو یقین نہ آئے تو پنجابی کے سٹیج ڈراموں میں سے کوئی ایک ڈرامہ ہی دیکھ لے دوبارہ کچھ سننے کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اب ریحام خان خود بھی لبرل کہہ لیں یا قدرے آزاد خیال ہیں۔ آخر ان میں کوئی خوبی تو ہو گی کہ کپتان نے دل و جان ان پر نثار کر دی اور انہیں حبالہ عقد میں لے آئیتھے۔ یہ خود بھی ایک فلمی کہانی کی طرح ہوا۔ ریحام انٹرویو لینے گئی اور بیگم عمران بن گئی۔ یعنی چند ہی ملاقاتوں میں دونوں ایک ہو گئے۔ اب فلم بنانے کا پروگرام بھی ریحام خان نے اسی طرح اچانک بنا لیا ہے۔ اس میں ضرور پہلے سے کوئی پلاننگ انہوں نے کی ہو گی۔ نام سے ہی اندازہ ہو رہا ہے کہ سکرپٹ خاصہ جاندار ہو گا۔ اب کہانی کیا ہو گی اس بارے میں انہوں نے کہا ہے کہ یہ فلم دیارِغیر مثلاً امریکہ، کینیڈا اور برطانیہ میں آباد پنجابیوں کے حوالے سے ہو گی۔ واضح رہے کہ اس سے قبل بھی 2016ء میں انہوں نے بچوں سے زیادتی کے خلاف فلم ’’جاناں‘‘ بنائی تھی۔ اب دیکھتے ہیں یہ ان کی نئی پنجابی فلم کیسی رہتی ہے جس میں وہ نئے چہرے متعارف کرا رہی ہیں۔
٭٭٭٭٭
اسرائیلی مظالم کے خلاف امریکی فوجی نے احتجاجاً خودسوزی کر لی۔
ویت نام میں امریکی جارحیت کے دوران بہت سے محب وطن ویت نامیوں نے احتجاجاً امریکی مظالم کے خلاف اسی طرح خودسوزی کی مگر عالمی ضمیر مردہ رہا۔ ہاں روسی بلاک کے ممالک نے شور ضرورمچایا۔ اس وقت اگر میڈیا آج کی طرح فعال ہوتا تو شاید اتنی بڑی تعداد میں خودسوزیوں کے بعد قیامت برپا ہوتی۔ مگر یہ خیال بھی فاسد معلوم ہوتا ہے کیونکہ غزہ میں 30 ہزار سے زیادہ انسانوں کی اسرائیل کے ہاتھوں وحشیانہ ہلاکتوں کے باوجود عالمی برادری ابھی تک امریکہ ، برطانیہ اور ان کے حواری و اتحادی ممالک کا اور کچھ نہیں تو سماجی بائیکاٹ ہی کرتی تو یہ مظالم رک سکتے تھے۔ مگر فلسطینی چونکہ مسلمان ہیں یہودی یا عیسائی نہیں اس لیے ہمدردی کی وہ لہر پیدا نہیں ہو سکی جو یوکرائن والوں کے لیے دنیا بھر میں خاص طور پر مغربی ممالک میں بیدار ہے…پھر بھی انسانیت ابھی مری نہیں۔ دنیا بھر میں انسان دوست لاکھوں افراد فلسطینیوں کا قتل عام روکنے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ گزشتہ اور شدید احتجاج اس وقت سامنے آیا جب اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکہ کے ایک فوجی نے اسرائیلی سفاتخانہ کے سامنے فلسطینیوں پر مظالم کے خلا ف احتجاج کر کے خود کو پٹرول چھڑک کر آگ لگالی اور اپنی جان دیدی۔ اس سنگین واقعہ سے امریکی حکام کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں مگر لگتا یہ وہ اسرائیل دوستی میں تمام انسانی اقدار کھو چکے ہیں۔ خودسوزی سے پہلے اس نے ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ فلسطینیوں پر مظالم کے خلاف ایک سخت احتجاج کرنے جا رہا ہے اور واقعی اس شخص نے عالمی برادری کے منہ پر طمانچہ رسید کر دیا ہے۔ اس بات کی خود امریکیوں کو بھی توقع نہیں تھی۔ امید ہے اس امریکی فوجی کی قربانی رائیگاں نہیں جائے گی اور اسرائیل امریکہ اور برطانیہ کو فلسطین میں قتل عام بند کرنا ہو گا۔
٭٭٭٭٭
مریم نواز سے عظمیٰ کاردار کی گلے ملنے کی خواہش ادھوری رہ گئی۔
ویسے بھی اس وقت عظمیٰ کے ہاتھ ناشتے کیوجہ سے چکنے تھے۔جس کی وجہ سے وزیراعلی کالاکھوں کا قیمتی ڈوپٹہ اور لباس خراب ہو جاتا۔
اب دونوں اس حوالے سے لاکھ وضاحتیں کریں مگر چینلز پر وائرل ویڈیو میں صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ عظمیٰ کاردار نے دونوں ہاتھ کھول کر اپنی قائد کو والہانہ انداز میں گلے سے لگایا۔ مگر مریم نواز نے ان کا ہاتھ پرے کر دیا۔ اب عظمیٰ کاردار کہہ رہی ہیں وہ حلوہ پوری کا ناشتہ کر رہی تھیں جیسے ہی مریم آئیں انہوں نے آگے بڑھ کر انہیں گلے لگایا ہاتھ صاف نہیں تھے اس لیے خود ہی پیچھے کر دئیے یعنی ہٹا دئیے۔ اب ویڈیو دیکھیں تو معاملہ الگ نظر آتا ہے۔ گستاخی معاف فلمی اداکار ہوں یا سیاستدان ان کی ایک ایک حرکت پر کیمرے کی نظر ہوتی ہے۔ لوگ اپنے رہنما?ں سے خاص طور پر نہایت مربیانہ انداز کی بھرپور توقع رکھتے ہیں۔ اگر ایسا نظر نہ آئے تو انہیں مغرور سمجھتے ہیں۔ اس بات کو ان کے اس انداز کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اس لیے وزیر اعلیٰ پنجاب کے طور پر اب مریم نواز کو اپنا انداز بدلنا ہو گا۔ انہیں ایک شفیق اور مہربان خاتون وزیر اعلیٰ کا انداز اختیار کرنا ہو گا۔ بے نظیر کی طرح جنہیں آج بھی لوگ ان کے مربیانہ انداز کی وجہ سے یاد کرتے ہیں۔ یہ تو ایم پی اے کے ساتھ ان کا رویہ تھا۔ عام آدمی تو یہ دیکھ کر ہی سہم گیا ہو گا۔ کم از کم کیمرے کی آنکھ کے سامنے جب ہر طرف یہ ہر ادا پر نظر رکھے ہوتے ہیں انہیں ہر ایک کے ساتھ محبت اور شفقت سے پیش آنا ہو گا کیونکہ محبت کو فاتح عالم اسی لیے کہا جاتا ہے کہ اس کی وجہ سے انسان درندوں کو بھی قابو کر لیتا ہے۔ انسان بے چارے تو کسی کھاتے میں شمار نہیں ہوتے…غریب عوام تو ویسے ہی مسکرا کر دیکھنے پر خوش ہو جاتے ہیں۔