ایمبیسیڈر
عقیدت بھی کیا چیز ہے۔ نہ چاہتے ہوئے بھی سات سمندر پار کے سفر پر مجبور کر دیتی ہے۔ ہمارے اس ادارتی سیکشن کے ایڈیٹر جناب سعید آسی اور راقم تقریباً عمر کے ایک ہی پیٹے کے راہی ہیں لیکن یہ خاکسار انکی علمی اور ادبی صلاحیتوں کا اسقدر معترف ہے کہ اِنھیں اپنے استاد کا درجہ دیتا ہے اور اسی ناطے اْن سے بے پناہ عقیدت بھی رکھتا ہے۔ پچھلے دنوں جناب سعید آسی کا محبت نامہ موصول ہوا جس میں اْنھوں نے اپنے فرزند سلمان سعید کی شادی پر مدعو کیا۔ ظاہر ہے ایسی تقریب سعید اور وہ بھی جو درِ سعید پر منعقد ہو رہی ہو اس سے کیسے دور رہا جا سکتا ہے۔ ہم نے سوچا کہ ایک پنکھ دو کاج، تقریب میں شرکت بھی ہو جائے گی، دوستوں سے ملاقات بھی ہو جائے گی اور سعید آسی صاحب سے عقیدت کا بھرم بھی رہ جائے گا کہ بندہ سات سمندر پار کا سفر کر کے صرف اور صرف شادی کی تقریب میں شرکت کیلئے آیا ہے۔
اپنے اپنے شوق کی بات ہے، لوگ بڑی آسانی سے سفر پر نکل پڑتے ہیں۔ یادیں بڑی ظالم چیز ہوتی ہیں۔ سفر کی بات چل نکلی تو مجھے میرا جگری یار میاں اسلم بشیر مرحوم یاد آ گیا۔ اسکے لیئے امریکہ کا سفر ایسے ہوتا تھا جیسے ایک محلے سے اْٹھ کر دوسرے محلہ جانا ہو لیکن اسکے برعکس یہ خاکسار جہاز کے سفر لمبے سفر سے بہت کتراتا ہے اور میرا اکثر اوقات اپنے مرحوم یار سے مکالمہ ہوتا کہ تم اتنا لمبا سفر اتنی آسانی سے کیسے کر لیتے ہو تو اسکا جواب ہوتا پیاء ‘‘ صرف اک نیند دی گولی’’۔ ایک زمانہ تھا لندن سے پاکستان کا سفر اپنی ائیر لائن’’ پی آئی اے ‘‘ کے ذریعے تقریباً آٹھ گھنٹے میں قدرے آسانی سے طے ہو جاتا تھا لیکن اللہ بھلا کرے یہ چکری والے غلام سرور خان کا جسکی عاقبت نا اندیشی نے ہمیں وہ دن دکھایا کہ پورے یورپ میں پی آئی اے کی پروازوں پر پابندی لگ گئی اور اب یہ عالم ہے کہ یورپ کے کسی بھی ملک سے پاکستان آنا ہو تو زیادہ تر پاکستانیوں کو خلیجی ممالک یا ترکش ائیر لائن سے استفادہ کرنا پڑتا ہے جسکی وجہ سے سفر کا یہ دورانیہ آٹھ گھنٹے سے بڑھ کر اب کم سے کم بھی تیرہ گھنٹوں پر چلا گیا ہے۔ اس پریکٹس کی وجہ سے جہاں ایک طرف وقت کے ضیاع کی زحمت اْٹھانا پڑتی ہے وہیں پر ٹرانزٹ ہونے کی وجہ سے ان ممالک کی ائیرپورٹس پر جو خواری اْٹھانا پڑتی ہے اسکی اپنی ایک الگ داستان ہے۔ ہماری بدنصیبی کی انتہاء دیکھیں کہ آج اس پابندی والے سانحہ کو برپا ہوئے تقریباً چار سال سے زائد کا عرصہ بیت چکا لیکن کیا مجال کہ ہمارے حکومتی اکابرین میں سے کسی ایک کے کان پر جوں تک رینگی ہو اور انھوں نے اس مسئلے کو سلجھانے میں رتی بھر کوئی initiative لیا ہو۔ قصہ مختصر پاکستان میں قیام کے آٹھ دس دن کے اس مختصر دورانیہ کے سفر کیلیئے ہمیں بھی کسی ائیرلائن کا انتخاب کرنا تھا سو ہم نے اس دفعہ بھی ایک خلیجی ملک کی ائیرلائن کو منتخب کیا لیکن اس دفعہ یہ معمول سے ہٹ کر ایک دوسرے خلیجی ملک کی پرواز تھی جسکا پہلا پڑاؤ بحرین ائیرپورٹ تھا۔
پرواز کی رْخصتی کا وقت صبح ساڑھے نو بجے تھا اور ٹکٹ بْک کرواتے وقت تین گھنٹے قبل ائیرپورٹ پر پہنچنے کی تلقین تھی۔ انسان جیسے جیسے عمر کا سفر طے کرتا ہے ویسے ویسے جہاں ایک طرف اسکے مزاج میں پْختگی آنا شروع ہوتی ہے وہیں پر اکثر و بیشتر یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ اپنے روزمرہ معمولات زندگی میں ضرورت سے زیادہ محتاط اور متفکر دکھائی دینا شروع ہو جاتا ہے۔ کیونکہ آجکل ہم بھی عمر کے اس پیٹے میں پہنچ چکے ہیں لہٰذا ان دنوں یہی نفسیاتی مسئلہ ہمارے ساتھ بھی درپیش ہے۔ چنانچہ تمام حفاظتی تحفظات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ہم اس پرواز کیلیئے ٹھیک چھ بجے ائیرپورٹ پر پہنچ گئے۔ ابھی پرواز کی روانگی کیلئے چیک ان شروع ہی ہوئی تھی اور جیسے ہی ہم اس ایئرلائن کیلئے مخصوص زون میں پہنچے تو کاونٹر پر بیٹھی ہشاش بشاش چہرے والی کوئی پچیس سالہ خاتون نے مسکراتے چہرے کے ساتھ بڑے دلکش انداز میں ہمیں اپنے کاونٹر کی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس خاکسار نے اپنی عملی زندگی کا جس محکمہ سے آغاز کیا اسکے زیادہ تر ملازمین کا ائیر پورٹ اور دوسری سفری گزرگاہوں پر لوگوں سے واسطہ پڑتا تھا۔ اس زمانے میں ہمارے ایک آفیسر ہوتے تھے حاجی اشرف محمود ، کیا پرسنیلٹی تھی۔ دیکھنے اور ملنے والے کو چشم زدن میں اپنی مسکراہٹ اور دھیمی گفتگو سے زیر کر لیتے تھے۔ وہ اپنے اسٹاف کو ایک بات کہتے تھے کہ بیرون ملک سے جو بھی غیر ملکی آتا ہے اسکا سب سے پہلے آپ سے واسطہ پڑتا ہے۔
یہ اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ اپنے روئیے اور برتاؤ سے اس پر اپنے ملک کا کیا تاثر چھوڑتے ہو، وہ کہا کرتے تھے کہ تم اپنے ذہن میں ایک بات بٹھا لو کہ تم کسی سرکاری یا پرائیویٹ محکمے کے ملازم نہیں بلکہ اپنے ملک کے ایمبیسیڈر ہو۔ یہ الگ بات کہ ہم نے یا ہمارے کسی اور کولیگ نے اس درویش مرد قلندر کی بات کو کوئی عملی اہمیت دی نہیں۔ لیکن یقین جانیئے کاونٹر پر بیٹھی اس خاتون کے روئیے اور برتاؤ نے اس ائیر لائن اور اسکو آپریٹ کرنے والے ملک کے متعلق ہمارے خیالات کو ایک نئی جہت بخشی اور اپنے آپکو اپنے ملک کا کامیاب ایمبیسیڈر ثابت کیا حالانکہ اکثر اوقات مشاہدے کی بنیاد پر اس خطے کے اکثر ممالک کے لوگوں کے رویوں کے متعلق ایک مخصوص تحفظ کا اظہار کیا جاتا ہے۔ احساس احساس کی بات ہوتی ہے، چیک ان کی کارروائی کرنے والی اس خاتون کی کس کس بات کی داد دیں۔ یقین جانیئے جہاں اس خاتون نے اپنے نیک روئیے کے ساتھ اپنے لیئے ہم سے دعائیں حاصل کیں وہیں پر اپنی ائیرلائن اور ملک کیلیئے بھی بڑا نام کمایا۔ یہاں پر ہمیں اپنی ائیرلائن پی آئی اے بہت یاد آئی کہ کبھی ساٹھ ستر کی دہائی میں یہ باتیں ہماری ائیر لائن کا طرہ امتیاز ہوتی تھیں۔ باقی باتیں اگلے کالم میں انشاء اللہ۔
٭…٭…٭