جمعرات‘ 18 شعبان المعظم 1445ھ ‘ 29 فروری 2024ء
الیکشن ہو چکے اب قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کی دیر ہے جس کی آج آخری تاریخ ہے۔ اس کے بعد نئی اسمبلی وجود میں آئے گی۔ نئے ممبران حلف لیں گے جس کے بعد سپیکر،ڈپٹی سپیکر اور وزیراعظم کا انتخاب ہو گا۔ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا آیا ہے اور ہوتا رہے گا۔ مگر اس بار لگتا ہے ایوان صدر میں موجود صدر ماضی کے کئی اقدامات کے طرح اس مسئلے کو بھی سیاسی شطرنج کی بساط پر ایک چال کی طرح چلا رہے ہیں۔ اب کی بار دیکھنا ہے وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں۔ مسلم لیگ نون، پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم والے کہہ رہے ہیں کہ صدر اجلاس طلب کریں مگر صدر کہتے ہیں پہلے مخصوص نشستیں پ±ر کرو۔ یوں بقول غالب
بازیچہ اطفال ہے دنیا میرے آگے
ہوتا ہے شب و روز تماشہ میرے آگے
ایک تماشہ لگا ہوا ہے۔ سیاسی پارہ ہائی ہوتا جا رہا ہے۔ سارا کاروبار سلطنت ٹھپ ہے۔ نگراں حکومت جاتے جاتے ٹھہر گئی ہے۔ نجانے کیوں یہ صورتحال پیدا کی جا رہی ہے۔ اگر صدر مملکت صرف اپنی جماعت اور اپنے قائد کے ساتھ وفاداری ثابت کرنے کے لیے ایسا کر رہے ہیں تو یہ غلط ہے ۔ وہ کسی جماعت کے نہیں پورے پاکستان کے صدر ہیں۔ ویسے بھی وہ ماہر امراض دندان ہیں اور بخوبی جانتے ہیں جس دانت میں تکلیف ہو صرف وہ ہی نکالا جاتا ہے۔ 32 کے بتیس دانت نہیں توڑے یا نکالے جاتے۔ جن دانتوں میں سوراخ ہے انہیں فل کیا جاتا ہے۔ سو وہ کریں مگر قانون اور آئین کو یوں بے توقیر کرنے سے تماشہ بنانے سے گریز کی پالیسی ہی بہتر ہوتی ہے۔ ورنہ وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا۔ مستقبل کا مورخ ہمیں کن الفاظ مین یاد کرے گا یہ یاد رکھنا بھی ضروری ہے۔
٭٭٭٭٭٭
بلوچستان میں دھرنے دینے والی جماعتوں نے دھرنا ختم کر دیا
جب دھرنے میں شامل ایک اہم جماعت اے این پی نے بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے پیپلز پارٹی کی حمایت کا اعلان کیا تو ظاہر ہے اس کے بعد اس نے دھرنے سے ویسے ہی نکل جانا تھا تو باقی جماعتیں جو دھرنے کا شغل اختیار کئے ہوئی تھیں وہ بھی آج نہیں تو کل آہستہ آہستہ کسی نہ کسی بہانے سڑکیں خالی کر دینے پر مجبور ہو جاتیں۔ یوں اس عاشقی میں عزت سادات کے جانے سے بہتر یہی سمجھا گیا کہ اب تمت بالخیر کرتے ہوئے عوام کی سہولت کے لیے بند کی گئی سڑکوں کو خالی کر دیا جائے۔ ویسے بھی شدید بارش، برفباری اور سردی کی وجہ سے غریبوں کا صبر و ضبط آزمانا ضروری نہیں۔ اب جلد ہی بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ہو گا ۔جے یو آئی اور پختونحواہ میپ والے اور بی این پی بھی اپنی نشستیں سنبھالیں گی۔ بہرحال ایک بات تو ضرور سامنے آئی ہے کہ دھرنا سیاست موثر تو ہے مگر کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ملک میں امن و امان کی صورتحال اور دہشتگردوں کی کارروائیوں کے پیش نظر احتیاط لازم ہے۔ ویسے کتنے حیرت کی بات ہے کہ ان دھرنوں میں شریک کسی سیاسی جماعت کا کوئی ماما کوئی چاچا یعنی بڑا مرکزی عہدیدار شامل ہو کر سڑکوں پر رات بسر نہیں کرتا تھا صرف غریب کارکنوں کو کہیں بنام وطن کہیں بنام مذہب جذبات میں لا کر ان کو ہی ان اذیت بھرے حالات میں سڑکوں پر بٹھایا اور سلایا جاتا رہا۔ یہ بے چارے مخلص کارکن ایسے بھولے ہوتے ہیں کہ کبھی اپنے پہلو میں کسی بڑے کامریڈ، مرشد یا سرداروں کو سڑکوں پر سوتا نہ پا کر بھی ان کی محبت میں گرفتار رہتے ہیں اور زندہ باد و مردہ باد کے نعرے لگا لگا کر اپنے گلے خشک کرتے ہیں۔
٭٭٭٭٭٭
وزیر اعلیٰ مریم نواز ٹریفک بلاک کرنے پر برہم
وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالتے ہی مریم نواز شریف نے اپنے چچا شہباز شریف سابق وزیر اعظم و وزیر اعلیٰ پنجاب کی طرح ان کی روایت پر عمل کرتے ہوئے مختلف ادارں کے طوفانی دورے شروع کر دئیے ہیں۔ اس حساب سے انہیں جہاں جانا ہوتا ہے وہاں پروٹوکول کے مطابق ٹریفک کو بھی کنٹرول کرنا ہوتا ہے۔ اب یہ ہماری اشرافیہ کی ادا ہے جو عام لوگوں کے لیے وبال ثابت ہوتی ہے۔ کئی مقامات پر تو بلامبالغہ گھنٹوں ٹریفک جام رہتی ہے۔ چلیں گھنٹوں نہ سہی ایک آدھ گھنٹہ بھی جو ٹریفک کا اژدھام جمع ہو جاتا ہے اس میں لوگ کافی دیر پھنسے رہتے ہیں۔ بوڑھے بچے اور خواتین کا براحال ہوتا ہے۔ اگر کوئی مریض ہو تو اس کی سانسیں اکھڑنے لگتی ہیں۔ اب وزیر اعلیٰ مریم نواز نے اپنی آمدورفت کے موقع پر بلاجواز ٹریفک بلاک کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ آئندہ ایسا نہ کیا جائے کیونکہ اس سے عوام کو تکلیف ہوتی ہے۔ خدا کرے انتظامیہ ان کے احکامات کو سنجیدگی سے لے اور عوام کو وی آئی پی پروٹوکول کی زحمت سے محفوظ رکھے تو لوگ مریم نواز کو دعائیں دیں گے۔ ویسے بھی اب اس ہٹو بچو، رکو چلو والے کلچر سے نجات ملنی چاہیے۔ اب دور بدل گیا ہے۔سوشل میڈیا چند لمحوں میں عوام کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے آسمان سر پر اٹھا لیتا ہے۔ اس لیے خدا کرے مریم نواز کا نام ان وزرائے اعلیٰ میں سرفہرست ہو جنہوں نے اس وی آئی پی کلچر سے جان چھڑائی اور عوام کو اس اذیت سے نجات دلا کر ان کی دعائی سمیٹیں۔ ورنہ پہلے بھی بہت سے وزیر اعلیٰ ایسے اعلانات کر چکے ہیں جن پر عمل کی نوبت کبھی نہ آ سکی۔
٭٭٭٭٭٭
لاہور قلندر کا پی ایس ایل 9 میں سفر تمام ہونے کے قریب
ویسے تو ابتدائی میچز میں لاہور قلندر کے ہارنے کی روایت پرانی ہے اور بڑی شدومد کے ساتھ برقرار ہے لگتا ہے قلندرز نے اس روایت کو گلے سے لگا رکھا ہے مگر اس بار پی ایس ایل 9 کے پہلے مرحلے میں چھ کے 6 میچ ہار کر قلندرز نے ایک نئی روایت کی بنیاد رکھ دی ہے۔ اب دیکھنا ہے وہ آئندہ اس پر قائم رہتی ہے یا اب ہار کے طوق سے جان چھڑاتی ہے۔ کھلاڑی بھی اچھے ہیں کھیلتے بھی ہیں مگر نجانے کیوں شکست نے لگتا ہے لاہور قلندرز کا گھر دیکھ لیا ہے اور مسلسل شکستوں کی وجہ سے لاہور والے بہت افسردہ ہیں۔ وہ بے چارے ہر میچ میں تیاری کر کے جاتے ہیں کہ آج خوب شغل میلہ لگائیں گے جیت کی خوشی منائیں گے مگر اپنی حسرتیں دل میں لئے واپس لوٹ آتے ہیں۔ گزشتہ روز کا میچ بھی ناکام حسرتوں کا مزار ثابت ہوا۔ یہ تو شکر ہے کہ یہ سب ٹیمیں ہماری اپنی ہیں۔ ورنہ کرکٹ کے شائقین نے تو آسمان سر پر اٹھا لینا تھا کہ ایسی کارکردگی کیا قومی سطح کے کھلاڑیوں کی ہوتی ہے۔ ویسے بھی یہ میچ لاہور میں ہو رہا تھا۔ اس شکست پر لاہور والوں کا جو حال ہوا سو ہوا۔ اب تو لگتا ہے پی ایس ایل 9 سے لاہور قلندرز کی واپسی کا وقت ہواچاہتا ہے۔ کئی دل جلے تو اعلان کر چکے ہیں کہ لاہور قلندر کا سفر اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اب وہ اس ایونٹ سے باہر ہو چکے ہیں۔ اس بار تو سارے میچ ہارنے کے بعد لوگ طرح طرح کے تبصرے کرنے لگے ہیں۔ آخر چپ بھی تو نہیں رہا جاتا۔ ویسے بھی کہتے ہیں ”خلقت شہر تو کہنے کو فسانے مانگے“ لاہور قلندرز کی ناقص کارکردگی کہہ لیں یا بدقسمتی۔ اس نے لوگوں کو یہ موقع ازخود فراہم کر دیا ہے۔
٭٭٭٭٭٭