ہماری سیاست میں ووٹ خریدنے کا ہنر
آغاز میں ہی وضاحت کر دوں کہ پاکستانی سیاست کا میں ماہر اور نہ ہی اس سیاست کے گرگٹ کی طرح بدلتے رنگوں کا مجھے ادراک ہے۔ تاہم اپنے 76 سالہ پاکستان کے ویسٹ منسٹر جمہوریت سے اخذ کئے رول ماڈل کا میں نے انتہائی قریب سے مطالعہ ضرور کیا ہے کہ برطانوی طرز معاشرت اور طرز سیاست میں شخصیات نہیں“ کام“ دیکھا جاتا ہے۔ اور یہی برطانوی جمہوریت کا وہ حسن ہے جس کی بناءپر دنیا برطانیہ کو آج بھی Mother of Democracy کے نام سے جانتی اور پہچانتی ہے۔ انتخابات یہاں بھی ہوتے ہیں‘ بیوروکریسی اور اسٹیبلشمنٹ یہاں بھی انتہائی طاقتور تصور کئے جاتے ہیں۔ غربت‘ بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی یہاں بھی زوروں پر ہے۔ فراڈ‘ دھاندلیاں اور محکمانہ اثرورسوخ یہاں بھی استعمال ہوتا ہے۔ بھکاری اور رات کو بے گھر افراد یہاں بھی پلوں کے نیچے سوتے ہیں۔ مگر! ان تمام تر خامیوں اور کمزوریوں کے باوجود برطانوی فلاحی نظام نے جمہوری رویوں کو مضبوط و طاقتور بنا رکھا ہے جبکہ ہمارے ہاں ”جمہوریت اور سیاست“ کا سرے سے تصور ہی تبدیل ہو چکا ہے۔
قومی سیاست کے بارے میں جو معلومات ہمارے رکشے والے‘ تانگے والے‘ ہئیر ڈریسر‘ چائے کے کھوکھے پر پتے کھیلتے گاہکوں‘ گلیوں محلوں اور شاہراہوں پر یہ صدا لگاتے ”دے جا سخیا راہ خدا‘ تینوں اللہ وزیر بنائے گا“ گداگروں اور بھکاریوں کے پاس ہوتی ہیں‘ ہمارا فیکلٹی‘ بیچلر اور ماسٹر ہولڈر ان معلومات سے کافی حد تک اس لئے بھی محروم ہے کہ ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا ہمارے ہاں سرے سے تصور ہی موجود نہیں۔ جس قوم کا سیاست دان ووٹ خریدنے کا ہنر جانتا ہو‘ جہاں کا انسانی سمگلر برطانیہ بھجوانے کے ڈیڑھ سے دو کروڑ روپے اور انگلستان میں قیام کیلئے 10 سے پندرہ ہزار پونڈ کا تقاضا کرتا ہو‘ ایسے ملک میں ووٹ کی طاقت‘ آئین اور جمہوریت میں استحکام کیسے ممکن ہو سکتا ہے؟
”پتھر پر لکیر“ انتخابات کے بعد عام تاثر یہی تھا کہ پاکستان کے سیاسی‘ معاشی اور اقتصادی حالات میں قدرے اب بہتری آئیگی مگر گزشتہ 16 ماہ کی حکومت کے بعد اس مرتبہ پھر کولیشن حکومت کا قیام اس امر کی دلیل ہے کہ مہنگائی‘ غربت اور احساس محرومی کا شکار عوام کی ایک بڑی تعداد ووٹ کی طاقت اور اہمیت کا درست طور پر ادراک نہیں کر پائی۔ چند روپوں میں ووٹ خرید کر اس کا غیرآئینی استعمال ہی وہ بنیادی قومی جرم ہے جس سے زندہ دل اور غیور قومیں اپنی عزت و وقار کھو دیتی ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے دیہی علاقوں میں سادہ لوح ووٹروں پر آج بھی یہی فارمولا استعمال کیا جا رہا ہے۔ باقی اندازہ آپ اس واقعہ سے خود لگالیں۔
راولپنڈی ڈویژن کے سابق کمشنر لیاقت چٹھہ نے اللہ کو گواہ بنا کر انتخابی عمل میں ہونیوالی دھاندلی اور rigging Vote کے بارے میں جو انکشافات کئے اور جس طرح ریٹرننگ افسروں اور پی آر اوز کی کارکردگی کو بیان کیا دیگر برطانوی پاکستانیوں کی طرح میں نے بھی انکی اس ”دلیری“ پر انکے حق میں دعا کی مگر! چند ہی گھنٹے گزرنے کے بعد انکے اس ارشاد نے کہ وہ ”بہکاوے“ میں آگئے اور مبینہ طور پر اب وہ پاکستانی عوام‘ الیکشن کمیشن اور عدلیہ سے غیرمشروط طور پر معافی کے طلب گار ہیں‘ مجھ سمیت دنیا بھر میں پھیلے محب وطن پاکستانیوں کو ورطہ¿ حیرت میں ڈال دیا۔ ایک انتہائی سینئر سی ایس ایس افسر سے ایسے طرز بیان کی کم از کم مجھے ہرگز توقع نہ تھی۔ سوال یہاں اٹھتا ہے کہ ”بہکاوے“ میں آنے سے قبل آخر وہ کون سے ایسے عوامل تھے جن کی وجہ سے سابق کمشنر پوری ذمہ داری اور سنجیدگی سے الزامات لگانے پر مجبور ہوئے؟ اس سوال کا جواب سابق کمشنر دے پائیں گے؟ یہ ہے دوسرا سوال عوام جس کے جواب کے منتظر ہیں۔
میرے منہ میں خاک مگر! یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ جس روز قوم کو ”دعا اور دغا“ کے فرق کے مفہوم سے آشنائی ہو گئی ”میرا پاکستان“ دنیا کی عظیم اسلامی مملکت بن جائیگا۔ ملک کے سیاسی حالات بتا رہے ہیں کہ نئی مخلوط حکومت کا قیام آئندہ چند روز میں مکمل ہونے جا رہا ہے جبکہ پنجاب اسمبلی کی حلف برداری کے بعد پنجاب کی سیاسی تاریخ میں محترمہ مریم نواز پہلی خاتون وزیراعلیٰ کا اعزاز حاصل کر چکی ہیں۔ اعزاز واقعی بہت بڑا ہے مگر! اس بڑے اعزاز کے ساتھ عوامی مسائل کا سائز اس سے بھی بڑا دکھائی دے رہا ہے۔ نامزد وزیراعلیٰ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے مسند اقتدار پر براجمان ہونے سے قبل ہی یہ واضح کرتے ہوئے کہ انکی کھینچی متعدد ریڈلائنز میں کرپشن سب سے بڑی ریڈ لائن ہوگی۔ صوبائی اداروں سمیت پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں پر واضح کردیا ہے کہ انکی کسی بھی ریڈ لائن کو کراس کرنے والے ادارے کے اہلکاروں اور افسروں کیلئے وہ کسی بھی قسم کا نرم گوشہ نہیں رکھیں گی۔
عوام کے مسائل کو فوری حل کرنے کے جذبہ سے سرشار انہوں نے صوبائی منصوبوں کو پایہ¿ تکمیل تک پہنچانے اور ترقیاتی کاموں کو مکمل کرنے کے ساتھ عوامی بھلائی کا پروگرام بھی دیا ہے تاہم انہوں نے اس بات کی کھل کر وضاحت نہیں کی سیاسی مخالفین سے انکی حکومت کیا سلوک روا رکھے گی؟ اسی طرح انہوں نے ”مفت بجلی“ دینے کے مبینہ اعلان کے باوجود صوبے کے غریب محنت کشوں اور بے روزگار افراد کیلئے کسی جامع پروگرام کے بارے میں تفصیلات سے آگاہ نہیں کیا۔ اسی طرح قومی ایئرلائن کی نجکاری کا معاملہ چونکہ وفاقی حکومت کے پاس ہے‘ اس لئے میری چھٹی حس اس خطرے کی گھنٹی بجا رہی ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا معاملہ شاید فوری حل نہ ہو سکے کہ مخلوط حکومت میں مسلم لیگ (ن) پی آئی اے کو پرائیویٹ اور پیپلزپارٹی نجکاری کے خلاف ہے۔ دعا کرئیں اللہ خیر کرے۔ آمین۔