ملک بھر سے ارکان قومی اسمبلی آج حلف اٹھائیں گے
قومی اسمبلی سیکرٹیریٹ نے قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے ، اس سے گزشتہ چند روز سے جاری ایوان صدر ، قومی اسمبلی سیکریٹریٹ اور نگران حکومت کے درمیان ہونے والے تنازعہ کا ڈراپ سین ہو گیا ہے، اجلاس میں پاکستان مسلم لیگ نون پاکستان پیپلز پارٹی پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان قومی اسمبلی حلف اٹھائیں گے اب تک کسی جماعت نے ایسا کوئی موقف اختیار نہیں کیا جس میں کہا گیا ہو کہ ہم حلف نہیں اٹھا رہے، پاکستان مسلم لیگ نون کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں سردار ایاز صادق کو قومی اسمبلی کے سپیکر کے منصب کے لیے نامز کر دیا گیا جبکہ ڈپٹی سپیکر کا منصب پاکستان پیپلز پارٹی کو دیا گیا ہے جس نے اپنے امیدوار کو نامزد کرنا ہے۔
پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا عمل اہم مرحلہ میں داخل ہو گیا ہے،8 فروری کو ہونے والے انتخابات کے نتیجہ میں چاروں صوبائی اسمبلیاں وجود میں آ چکی ہیں، قومی اسمبلی کے ارکان کی تقریب حلف وفاداری آج ہوگی، بدھ 28 فروری کو کے پی کے اسمبلی اور بلوچستان اسمبلی کے ارکان نے بھی حلف اٹھالیا، جبکہ سندھ اور پنجاب میں نومنتخب وزراء اعلیٰ بھی حلف اٹھا چکے ہیں، پنجاب میں مریم نواز شریف بھاری اکثریت سے وزیراعلیٰ منتخب ہوئی ہیں وہ پاکستان کی پہلی خاتون ہیں جن کو وزیراعلی کی حیثیت سے منتخب کیا گیا جبکہ سندھ میں مراد علی شاہ تیسری بار وزیر اعلیٰ بنے ہیں،اب ان دونوں صوبوں میں کابینہ کی تشکیل کا مرحلہ باقی ہے اور روز مرہ کے امور طے ہونا شروع ہو جائیں گے۔
قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے میں صدر مملکت کو بھیجی گئی سمری کے بعد اجلاس طلب کرنے میںیہ امر مانع تھاکہ جب تک قومی اسمبلی کی مخصوص نشستوں کے بارے میں فیصلہ نہ ہو جائے اس وقت تک اسمبلی مکمل نہیں۔ جبکہ اس کے برعکس نگران حکومت پاکستان پیپلز پارٹی پاکستان مسلم لیگ نون رہنماؤں کا موقف تھا کہ اسمبلی کے مکمل ہونا ضروری نہیں ہے، الیکشن کے بعد 21ویں روز کے اندراجلاس بلانا ضروری ہے، جیسا کہ سب کے علم میں ہے کہ پی ٹی آئی کا ارکان آزاد حیثیت سے منتخب ہوئے اسمبلی میں انہوں نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی، الیکشن کمیشن کے روبرو سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کے معاملے میں سماعت ہوچکی ہے، پاکستان پیپلز پارٹی مسلم لیگ نون اور سنی تحریک کے وکلا اپنے موقف کے حق میں دلائل دے دیئے ہیںجس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا ۔ بہرحال قومی اسمبلی کا اجلاس آج جمعرات کو ہوگا، جس میں ارکان حلف اٹھائیں گے اور جس کے بعد سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے الیکشن ہوں گے، اور قائد ایوان کا انتخاب کیا جائے گا جو بعد ازاں وزارت عظمی کے منصب کا حلف اٹھائیں گے، اور اپوزیشن لیڈر اپنی ذمہ داری کو سنبھالیں گے ، وفاق اور چاروں صوبوں میں منتخب حکومتیں کام کرنا شروع کر دیں گی، آئندہ دو ہفتے بہت اہم ہیں، صدر مملکت کے منصب پر انتخابات بھی نو مارچ تک ہوں گے ، اس منصب کے لیے پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے مشترکہ طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے، جب کہ اپوزیشن جماعتوں کے امیدوار کے نام سامنے نہیں آیا۔ نئے صدر مملکت کے انتخاب سے پارلیمنٹ مکمل ہو جائے گی، صدر ڈاکٹر عارف علوی کی میعاد گزشتہ سال ختم ہو گئی تھی تاہم نئے صدر کے انتخاب کے لیے الیکٹورل کالج نامکمل تھا، جس کی وجہ سے آئین کے مطابق انہوں نے نئے صدر کے انتخاب تک اپنی آئینی ذمہ داری کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا، آئندہ 10 سے 12 روز میں ایوان صدر میں ایک نیا مکین ہوگا، اسلام آباد میں سیاست سے متعلق بہت سرگرمیاں جاری ہیں ،قومی اسمبلی کے اولین اجلاس سے قبل اسلام آباد میں پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی پارلیمانی پارٹیوں کے الگ الگ اجلاس ہوئے ، میاں نواز شریف کی طرف سے اتحادی ارکان کی طرف سے عشائیہ بھی دیا گیا ،ان اجلاسوں میں اہم فیصلے بھی کئے گئے ،،پاکستان مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف نے بھی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شرکت کی جبکہ میاں شہباز شریف جو وزیر اعظم کے منصب کے لئے نامزد ہو چکے ہیں موجود تھے ،اسلام آباد اور صوبوں میں حکومتیں بن جائیں گی اور وزراء بھی آ جائیں گے تاہم کابینہ میں شمولیت کے خواہشمندوںکو ایڈجسٹ کرنا ایک بڑا مسئلہ رہا ہے، ظاہر مرکز میں ایک پارٹی کی حکومت تو نہیں ہوگی، اس لیے اپنی پارٹی کو متحد رکھنا اور ارکان کو مطمئن رکھنا اور اس کے ساتھ ساتھ اتحادی پارٹیوں کے ساتھ ایڈجسٹمنٹ کرنا ایک ازمائش سے کم نہیں ہوتا، پاکستان کے لیے مسائل کا ایک انبار ہے، توانائی کی لاگت امن و امان، اور مہنگائی کے مسائل نے لوگوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے، حکومت صوبوں کی ہو یا مرکز کی ہو اسے عوام کو ریلیف دینے کے لیے کام کرنا پڑے گا، حقیقت یہ ہے کہ اب کی بار حکومت میں آنا زیادہ مشکل فیصلہ ہے جبکہ اپوزیشن کا اپشن اسان ہے ، جائے، شائد یہی وجہ تھی کہ پی ٹی ائی نے مرکز میں حکومت قائم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں لی،اصف علی زرداری بھی گزشتہ چند ہفتے سے مسلسل اسلام اباد میں مقیم ہے، اس دوران انہوں نے بلوچستان میں مسلم لیگ نون اور دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کے معاملے کو طے کیا، اور صدر کے انتخاب کے لیے اپنی مہم کو بھی اگے بڑھا رہے ہیں اور اپنی حمایت کو وسیع کر رہے ہیں، قراین بتا رہے ہیں کیاصف علی زرداری باسانی ملک کے نئے صدر منتخب ہو جائیں گے، پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی انتخاب میں اپنے امیدوار کی انتخابی مہم میں مدد کے لیے چار رکنی کمیٹی بھی قائم کر دی ہے،پختون خوا اسمبلی کا افتتاحی اجلاس بے نظمی اور دھکم پیل کے دوران ہوا۔اسپیکر کے پی اسمبلی مشتاق غنی نے اجلاس کی صدارت کی۔کے پی اسمبلی کا اجلاس 11 بجے دن طلب کیا گیا تھا جو ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تاخیر سے شروع ہوا۔اجلاس کے دوران 115 نو منتخب اراکینِ خیبر پختون خوا اسمبلی نے حلف اٹھا لیا، اسپیکر خیبر پختون خوا اسمبلی مشتاق غنی نے حلف لیا۔نامزد وزیرِ اعلیٰ علی امین گنڈا پور اجلاس کے دوران اسمبلی میں موجود تھے۔خیبر پختون خوا اسمبلی کے اجلاس کے دوران دہشت گردی کے خلاف جنگ کے شہداء کے لیے بلند درجات کی دعا بھی کرائی گئی۔بانی پی ٹی ائی نے خیبر پختون خوا اسمبلی کے اسپیکر کے لیے بابر سلیم کو نامزد کر دیا ہے۔ اسپیکر مشتاق غنی نے اعلان کیا ہے کہ اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے پی اسمبلی کا انتخاب 29 فروری کو ہو گا۔اجلاس کے موقع پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے اسمبلی ہال میں زبردستی گھسنے کی کوشش کی جس کے باعث اسمبلی میں داخلے کے دوران ارکانِ اسمبلی اور پی ٹی آئی کے کارکنوں میں دھکم پیل ہوئی ہے۔اسمبلی کی گیلری میں موجود پی ٹی ائی کے کارکنوں نے ہال کے اندر سے ثوبیہ شاہد پر لوٹا، بال پوائنٹ، کاغذ، خالی بوتل اور جوتے پھینکے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں بلوچ لاپتہ طلبہ کی بازیابی کے کیس کی سماعت جسٹس محسن اختر کیانی نے کی۔ نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ ہم سب آئین اور قانون کے تحت کام کررہے ہیں، میں عدالت کے بلانے پر حاضر ہوا ہوں، میرا بلوچستان سے تعلق ہے، ہم مسلح جدوجہد کا سامنا کررہے ہیں۔چین نے ابتدائی طور پر قیمت میں اضافے کا مطالبہ کیا تھا تاہم اب اس نے حالیہ شرائط پر پاکستان کا 2ارب ڈالر کا قرض رول اوور کرنے پر ر ضامندی ظاہر کردی ہے۔وزارت خزانہ نے بتایا کہ چین کے ساتھ 23مارچ کو ادا کیے جانے والے 2 بلین ڈالرز کی ادائیگی کی مدت میں مزید توسیع پر مفاہمت ہوگئی ہے۔