• news

شہباز شریف بھاری اکثریت سے وزیراعظم بن جائینگے، حکومت کو جلد امید کا وژن دینا ہو گا

اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی ایم کیو ایم اور دیگر اتحادی جماعتوں کے جماعتوں کے نامزد امیدوار شہباز شریف 169 سے کہیں زیادہ  ووٹ لے کر دوسری بار وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالیں گے۔ قومی اسمبلی کا آج کے اجلاس کے لیے ایجنڈا پہلے ہی جاری کر دیا گیا ہے، میاں شہباز شریف  کامیابی اور حلف اٹھاتے ہی وفاق اور چاروں صوبوں میں نمائندہ حکومتوں کی تشکیل مکمل ہو جائے گی۔ پانچوں حکومتوں کو قلیل اور درمیانی مدت کے اندر  ڈیلیور کرنا پڑے گا ،محاذ آرائی اور تلخی سے اس بار کارکردگی کو چھپایا نہیں جا سکے گا۔ اپوزیشن کی  بڑی جماعت ہو یا مسلم لیگ نون پیپلز پارٹی اور سمیت دیگر اتحادی جماعتیں ہیں  ان کے لیے آگے کا سفر معاشی  مشکلات کا حامل ہو گا ، جس کے لیے ضروری ہوگا کہ وفاقی حکومت پنجاب سندھ بلوچستان  اور کے پی کے  کی حکومتیں  اپنے اپنے دائرہ اختیار کے اندر اور اور بین الحکومتی ورکنگ ریلیشن شپ قائم کریں۔ اسلام آباد میں بننے والی حکومت اور اس کے ساتھ اتحاد میں کام کرنے والی  جماعتوں  مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی  بہترین تعلقات کار قائم کرنا پڑیں گے، بہت سے معاملات میں ان جماعتوں کے اہداف ایک دوسرے کی متضاد ہیں ۔ جن میں سے ایک نجکاری شامل ہے۔ سندھ جہاں پر پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی ہے۔ پانی کے حوالے سے مسائل کو اٹھاتی رہتی ہے، پانی کی تقسیم سندھ کا بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح کے پی کے میں قدرتی  وسائل کی رائلٹی  کی رقم اور اس کے واجبات کی اداییگی  کے حوالے سے بہت حساس  ایشوز ہیں، وفاق کا  سالانہ ترقیاتی صوبوں اور وفاق کے درمیان عموما رسہ کشی کا باعث بنتا ہے۔ این ایف سی تشکیل  پانا ہے، ان تمام ایشوز میں چاروں صوبوں کو وفاق کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے، اس وقت کے پی کے  واحد صوبہ ہے جہاں پر اپوزیشن  جماعت کی حکومت بنی ہے، اس صوبے میں مالی مسائل پہلے سے موجود ہیں، نیٹ ہائیڈل پرافٹ کی وفاق سے تواتر سے وصولی اور دہشتگردی  اور پسماندہ اضلاع  کے لیے ترقیاتی  رقوم کا اجرا اور پی ایس ٹی پی میں اپنے صوبے کے لیے سرکاری پروگرام کا حصہ لینے کے لیے صوبوں کو وفاق کے ساتھ بہتر ورکنگ ریلیشن شپ رکھنا پڑے گی، این  ایف سی تشکیل ہوگا تا ہم اس میں سب سے بڑی رکاوٹ صوبوں کی طرف سے مزید حصے کا مطالبہ، آبادی پسماندگی، غربت  جیسے فیکٹرز کو وزن دینے پر اختلافات پیدا ہوتے ہیں اور بات اگے نہیں بڑھ پاتی، وفاق کے پاس اب عمودی حصہ بڑھانے کی گنجائش نہیں رہی،متوازی تقسیم کے ایشوز میں صوبوں کو ایک دوسرے کو ایڈجسٹ کرنا پڑے گا۔ چاروں صوبائی حکومتوں اور وفاق کے لیے تشکیل کے پہلے 100 دنوں میں ایسا وژن اور پروگرام عوام کو دینا ہوگا جس سے امید پیدا ہو کہ حکومتیں درست سمجھ میں چل پڑی ہیں اور مسائل کے حل کی جانب پیش رفت ہو رہی ہے۔ انرجی کی بڑھتی ہوئی لاگت کا حل وفاقی اورصوبائی حکومتوں کو مل کر نکالنا ہوگا۔ اس کا بوجھ کم کیے بغیر  گروتھ ہو سکتی ہو سکے گی اور نہ ہی عوام کو ریلیف دیا جا سکے گا اور یہ امتحان آج  شروع ہو گیا۔

ای پیپر-دی نیشن