• news

مخلوط حکومت ‘ جوابدہ کون ہوگا ؟

گمان تھا کہ عام انتخابات سے وطن عزیز کے جمہوری نظام پر چھائی بدگمانیوں کی دھند چھٹ جائے گی اور آئندہ پانچ برسوں کیلئے مطلع صاف ہو جائیگامگرجب نا انصافی کی فصل بوئی جائے ‘غریب کی فریاد بے اثر ٹھہرے اور دھرتی کا چہرہ بے گناہوں کے خون سے دھویا جائے پھرسازگار ہوائیں نہیں چلا کرتیں‘ منزلیں نہیں ملتیں ‘ راستے کھو جاتے ہیں اور دیکھیے ! پھر وہیں کھڑے ہیں‘جہاں چند برس پہلے کھڑے تھے ! یقینا انتشار و افراتفری کوئی محب وطن نہیں چاہتا مگر جو ہورہا ہے وہ کسی طور بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا بلکہ ہر کس و ناکس کہہ اٹھا ہے :کوئی موسم بھی رہائی نہیں دیتا ہم کو ،رت بدلتی ہے تو زنجیر بدل جاتی ہے۔!
یقینا پی ٹی آئی کے بانی قائد عمران خان نے بہت سی غلطیاں کی ہیں جو ناقابل فراموش ہیں اور سزا کے طور پر تدبیریں بھی ٹھیک ٹھاک کی گئی تھیں لیکن ’’الٹی ہوگئیں سب تدبیریں کچھ نہ دوا نے کام کیا۔ دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا۔ ‘‘ عوام نے عمران خان کو جیت کا ہار پہناکر ثابت کر دیا کہ وہ دلوں میں اتر چکا ہے ‘ سب مانتے ہیں کہ ووٹر نکلا ہی پی ٹی آئی کے لئے تھا۔ایسا شعور کہ پارٹی نشان بھی نہیں تھا پھر بھی مہریں لگانے والے چوکے نہیں۔ اس پر طرہ یہ کہ فارم 45اور 47 سمیت صوبائی اور قومی کا فرق بھی ازبر تھا۔اس شعور نے اہل فکرو دانش کو بھی حیران کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن دوسرے نمبر پر آئی اور تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی‘ مبینہ دھاندلی کے الزامات لگ چکے ہیں کیونکہ فارم 45اور47 سوالیہ نشان ہیں! لہذا اڑیں گے پرزے اور دھرنے ہونگے کیونکہ جو ہارے ہیں وہ نتائج ماننے کو تیار نہیں جبکہ دوسرے نمبر پر آنیوالوں نے نہ صرف جیت کا اعلان کیا بلکہ حلف بھی اٹھا لئے ہیں اور حکومتیں بھی تشکیل دے دی ہیں۔یہ تو ہونا تھا کیونکہ نظام حکومت بھی تو چلانا ہے۔ جس کے پاس سب سے زیادہ سیٹیں ہیں وہ جیل کے اندر بیٹھا کسی کے ساتھ گٹھ جوڑ کرنے کوتیار نہیں تھا حالانکہ پیپلز پارٹی ‘ پی ٹی آئی کے ساتھ ملکر حکومت بنانے کو تیار تھی ‘ مگر خان صاحب کی ہٹ دھرمی نے سب کو مایوس کیا خاص طور پر عوام موجودہ سیاسی منظر نامہ دیکھ کر ذہنی کرب کا شکار ہیں۔ لیکن! جنھیں عوامی نمائندے یہ پوچھنے کا حق نہیں دیتے : بتائو!حلف کس چیز کا لیا تھا ؟ ان کے نزدیک عوام کے ووٹ اور رائے کی اہمیت ہے؟۔ باقی دھاندلی ہمیشہ ہوتی ہے لیکن کسی کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کب اورکیسے ووٹ بدلے گئے ‘ کچھ ووٹر اتنا نہیں نکلتا۔ با آسانی مطلوبہ نتائج حاصل کر لئے جاتے ہیں لیکن اب کچھ چھپتا ہی نہیں۔ ایسا شعور عوام کو دیا گیا ہے کہ مبینہ دھاندلی اور متنازع نتائج پر واویلا چینلوں پر بیٹھے جانبدارصحافی بھی کر رہے ہیں بلکہ برملا کہہ رہے ہیں۔ کیسی تاریخ رقم کر دی گئی ہے اور اتنا پیسہ لگا کر پھر وہی پی ڈی ایم ٹو کی شکل میں اقتدار میں آ گئی ہے۔ یعنی جو سیٹ اپ ہم نے ڈیڑھ دو سال بھگتا وہی دہرایا جائے گا۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق ریلیف ملے گا!جبکہ یہ نوشتہ دیوار ہے کہ عوام کسی کو اب مزید وقت نہیں دیں گے کیونکہ صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا ہے۔ مزید عدم اعتماد کی فضا پیدا ہو چکی ہے۔ہم ماضی سے سبق حاصل کیوں نہیں کرتے جبکہ طے ہے کہ متنازع نتائج کی روشنی میں حکومت سازی سنگین غلطی ہوگی !مخلوط حکومت بہتر ہے مگرجوابدہ کون ہوگا؟۔
ہمارے فیصلہ ساز دور اندیشی سے کام کیوں  نہیں لیتے۔ انھیں جگ ہنسائی نظر کیو ں نہیں آتی جبکہ ڈیجیٹل میڈیا کوئی پردہ داری نہیں رکھتا اور انٹرنیشنل میڈیا ہمارے انتخابی عمل پر سوال اٹھا رہا ہے۔ بس اتنی سی بات ہے کہ ہر کسی نے اپنی سوچ اور مرضی کے مطابق بے لباسی ‘ برائی اور بد عنوانی کی تشریح کر رکھی ہے اور یہی حال سیاسی جماعتوں اور ان کے سپوٹرز کا ہے۔ جب تک اس ملک میں ننگے پن ، بد عنوانی ، چوری،بد کرداری اور برائی کی تشریح وہ نہیں ہوگی جو کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے بتائی ہے تب تک شخصیت پرستی کے بت نہیں ٹوٹیں گے اور ملک و قوم کو استحکام  نہیں ملے گا اور نہ ہی برسر اقتدار طبقات سیاست کو خدمت سمجھیں گے۔ اب تو جس سمت ملک کو دھکیلا جا رہا ہے ہم کہنے پر مجبور ہیں کہ :
بہت مشکل ہے کہ حالات کی گتھی سلجھے 
اہل دانش نے بہت سوچ کے الجھائی ہے !
٭…٭…٭

رقیہ غزل

رقیہ غزل

ای پیپر-دی نیشن