پنجاب کے ہیلتھ سسٹم میں اصلاحات
وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے پنجاب کے ہیلتھ سسٹم میں مرحلہ وار اصلاحات کی منظوری دے دی۔ وزیر اعلیٰ کی زیر صدارت تین گھنٹے طویل خصوصی اجلاس میں ہیلتھ سسٹم کی تشکیل نو اور محکمہ صحت کی اپ گریڈیشن کے پانچ سالہ پلان پر غور کیا گیا اور سسٹم کی اصلاح کا جائزہ لیا گیا۔ دیہی اور رورل مراکز صحت، ڈسپنسریوں کے انتظام کی بہتری کیلئے تجاویز، ماں اور بچے کی صحت اور ان کیلئے معیاری علاج سے متعلق امور کا بھی جائزہ لیا گیا۔ وزیر اعلیٰ مریم نواز نے ہدایت کی کہ کوئی ہسپتال ایسا نہ ہو جہاں ڈاکٹر، عملہ، ادویات اور مطلوبہ طبی آلات میسر نہ ہوں۔ مریم نواز نے شفافیت یقینی بنانے کیلئے ہیلتھ ایڈوائزری کونسل تشکیل دینے کا حکم دیا۔ ہسپتالوں میں عوام کی رہنمائی کیلئے اردو سائن بورڈز اور فرشی ایرو لائننگ لگانے کی ہدایت کی اور عوام کو مفت ادویات کی فوری فراہمی یقینی بنانے کی منظوری بھی دی۔ صحت کی سہولتیں عوام کی دہلیز تک پہنچانے کیلئے فیلڈ ہسپتال پراجیکٹ کے تحت سب اربن ایریا اور دیہات میں مقررہ ایام پر موبائل ہیلتھ یونٹ بھیجے جائیں گے۔
یہ امر اطمینان بخش ہے کہ اپنے منصب کا حلف اٹھاتے ہی وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے ترجیحی بنیادوں پر کام شروع کر دیئے گئے ہیں جن میں مہنگائی سے عاجز آئے عوام کیلئے سستی اشیائے ضروریہ اور رمضان پیکیج کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ علاج معالجہ کی بہترین سہولیات کی فراہمی کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کئے جا رہے ہیں جس کیلئے سرکاری ہسپتالوں کی سطح پر مفت ادویات کی فراہمی‘ عملہ اور مطلوبہ طبی آلات کی موجودگی کو یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسکے علاوہ دیہی علاقوں میں رورل مراکز صحت‘ معیاری ڈسپنسریوں کے قیام سمیت موبائل ہیلتھ یونٹ بھیجنے کا بھی اہتمام کیا جا رہا ہے۔ بے شک وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے سرکاری ہسپتالوں کو اپ گریڈ کرنے اور ان میں عوام کو بہترین سہولیات فراہم کرنے کے اقدامات قابل ستائش ہیں‘ انہیں مارکیٹ اور بازاروں میں فروخت ہونیوالی مہنگی ادویہ کے نرخوں کی طرف بھی توجہ دینی چاہیے جو عام آدمی کی دسترس سے عملاً باہر ہیں۔ اس کیلئے فارماسیوٹیکل کمپنیوں کی من مانیوں کے آگے بند باندھنے کی ضرورت ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اس وقت عام آدمی کیلئے صحت اورتعلیم بہت بڑے مسائل ہیں۔ عام آدمی کیلئے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت کرنا مشکل ہو چکا ہے چنانچہ صحت کے ساتھ ساتھ معیاری سستی تعلیم کے حصول پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اگر سرکاری سکولوں کا معیار تعلیم بہتر ہوگا تو نجی تعلیمی اداروں کی من مانیاں بھی ختم ہو جائیں گی۔ اس لئے سرکاری سکولوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرکے یکساں نصاب رائج کیا جائے تاکہ غریب آدمی کا بچہ بھی جدید دور کے مطابق تعلیمی سہولیات سے مستفید ہو سکے۔