• news

ملک کے 24 ویں وزیراعظم شہبازشریف سے وابستہ توقعات

قومی اسمبلی کے منتخب ایوان میں اتوار 3 مارچ کو اتحادی جماعتوں کے مشترکہ امیدوار میاں شہبازشریف 24ویں وزیراعظم پاکستان منتخب ہو گئے۔ انہوں نے مجموعی 336 ارکان کے ایوان میں 201 ووٹ حاصل کئے جبکہ انکے مدمقابل سنی اتحاد کونسل کے عمر ایوب خان کو 92 ووٹ حاصل ہوئے۔ 336 کے ایوان میں سادہ اکثریت حاصل کرنے کیلئے 169 ووٹ درکار ہوتے ہیں جبکہ سردار اختر مینگل اور جمعیت علماء اسلام (ف) کے ووٹنگ کے عمل میں حصہ نہ لینے کے باوجود میاں شہبازشریف کو 201 ووٹ حاصل ہوئے جو ہائوس میں انہیں واضح اکثریت حاصل ہونے کا ثبوت ہے۔ 
میاں شہباز شریف دوسری بار وزیراعظم کے منصب پر منتخب ہوئے ہیں۔ وہ پہلی بار 11 اپریل 2022ء کو عمران خان کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی منظوری کے بعد وزیراعظم منتخب ہوئے تھے اور اس سے قبل تک وہ 2018ء کی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر رہے۔ اب 16 ویں قومی اسمبلی میں انہیں دوبارہ وزیراعظم منتخب کیا گیا ہے جنہیں مسلم لیگ (ن) کے قائد میاں نوازشریف نے بطور وزیراعظم نامزد کیا تھا۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ سب سے پہلے میاں نواشریف ہی کے پاس گئے جنہوں نے انہیں گلے لگاتے ہوئے مبارکباد دی۔ میاں شہبازشریف نے اپنی سیاست کا آغاز 1986ء میں کیا جب وہ پنجاب کے رکن منتخب ہوئے۔ اس سے قبل وہ لاہور چیمبرز آف کامرس و انڈسٹری کے دو بار صدر منتخب ہوئے تھے۔ وہ 1993ء سے 1996ء تک پنجاب اسمبلی کے قائد حزب اختلاف رہے اور 1997ء میں پہلی بار وزیراعلیٰ پنجاب کے منصب پر منتخب ہوئے۔ اس منصب پر دوسری بار ان کا انتخاب 2008ء میں عمل میں آیا جبکہ 2014ء میں وہ تیسری بار وزیراعلیٰ پنجاب بنے۔ مسلم لیگ (ن) کے پلیٹ فارم پر انہوں نے کامیابی کے ساتھ اپنی سیاسی اننگز کھیلی ہیں اور اپنے برادر بزرگ میاں نوازشریف کا کبھی ساتھ نہیں چھوڑا۔ اکتوبر 99ء میں جب ماورائے آئین اقدام کے تحت جمہوریت کی بساط الٹائی گئی تو میاں نوازشریف وزیراعظم اور میاں شہبازشریف وزیراعلیٰ پنجاب تھے۔ میاں نوازشریف ایک سال سے زائد عرصہ تک مختلف جیلوں میں قید رہے جنہیں طیارہ سازش کیس میں عمر قید کی سزا ہوئی اور پھر ایک معاہدے کے تحت انہیں انکے خاندان سمیت دس سال کیلئے جلا وطن کیا گیا تو میاں شہبازشریف نے انکے ساتھ ہی یہ جلا وطنی قبول کرلی اور پھر 2007ء میں انکے ساتھ ہی جلاوطنی ترک کرکے ملک واپس آئے۔ 2018ء کے انتخابات میں میاں شہبازشریف رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور قائد حزب اختلاف کا منصب سنبھالا اور اس دوران بھی انہوں نے نیب کے مقدمات کا سامنا کیا جن میں وہ دوبار کوٹ لکھپت جیل میں قید ہوئے۔ شہباز شریف کی سیاست میں اہم موڑ اس وقت آیا جب مارچ 2022ء میں وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوئی جس کا محرک اس وقت کا اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم تھا۔ اس تحریک کی منظوری کے بعد میاں شہبازشریف وزیراعظم منتخب ہوئے۔ اس منصب پر انکے انتخاب میں پیپلزپارٹی کے قائد آصف علی زرداری کا کلیدی کردار تھا جو حکومت میں ایک دوسرے کی ماضی کی متحارب جماعتوں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے باہمی تعاون کا نکتہ آغاز بھی تھا۔ اتحادیوں کی یہ حکومت قومی اسمبلی کی تحلیل تک قائم رہی تاہم عوامی مسائل کے تناظر میں اسکی ناکام ترین گورننس بھی سیاسی تاریخ کے سیاہ ابواب کا حصہ بنی اور اسی خراب ریکارڈ کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کو 2024ء کے انتخابات کے میدان میں اترنا پڑا جبکہ اسکی حکومتی اتحادی پیپلزپارٹی کی قیادت بھی تنقیدی نشتروں کے ساتھ مسلم لیگ (ن) کے مدمقابل آگئی۔ اس انتخاب میں کسی بھی پارٹی کو سادہ اکثریت حاصل حاصل نہ ہو پائی تو مخلوط حکومت کی تشکیل کیلئے مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی پھر ایک پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو گئیں۔ الیکشن کمیشن کی ناقص منصوبہ بندی کے باعث پی ٹی آئی‘ جمعیت علماء اسلام (ف)‘ پشتون خواہ ملی عوامی پارٹی اور بعض قوم پرست جماعتوں کو انتخابات کے نتائج پر انگلی اٹھانے کا موقع ملا جن کی احتجاجی تحریک ہنوز جاری ہے۔ اس فضا میں میاں نوازشریف نے وزارت عظمیٰ کیلئے خود میدان میں آنے کے بجائے میاں شہبازشریف کو نامزد کرکے سیاسی حلقوں کو حیرت میں مبتلا کر دیا جبکہ میاں شہبازشریف کے بارے میں یہ تاثر پہلے ہی پختہ ہو چکا تھا کہ وہ افہام و تفہیم کی سیاست کی بنیاد پر سب کیلئے قابل قبول ہو سکتے ہیں۔ اب وہ ملک کے 24ویں وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں تو انہیں یہی اصل چیلنج درپیش ہوگا کہ انہوں نے قومی افہام و تفہیم کی بنیاد مستحکم بنا کر سلطانیِ جمہور کو لاحق خطرات کیسے ٹالنے ہیں اور روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل میں دھسنے عوام کو مطمئن کرکے ان کا سسٹم پر اعتماد کیسے بحال کرنا اور برقرار رکھنا ہے۔ انہوں نے بطور وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد اسمبلی کیایوان میں اپنی پہلی تقریر میں جہاں میاں نوازشریف کو معمار پاکستان کا خطاب دیا اور کہا کہ انکی قیادت میں پاکستان میں خوشحالی کا انقلاب آیا ہے وہیں انہوں نے پیپلزپارٹی کے بانی چیئرمین سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو بھی دل کھول کر خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ شہید بھٹو کی خدمات قوم ہمیشہ یاد رکھے گی جنہوں نے پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کی بنیاد رکھی تھی۔ اسی طرح انہوں نے محترمہ بے نظیر بھٹو کو بھی شہید کا لقب دیکر خراج عقیدت پیش کیا اور کہا کہ شہید بے نظیر بھٹو نے جمہوریت اور قانون و انصاف کیلئے جان کا نذرانہ پیش کیا ہے۔ 
بطور وزیراعظم میاں شہبازشریف کا اظہار کردہ یہ جذبہ بلاشبہ قومی افہام و تفہیم کا اور منافرت کی سیاست ختم کرنے کا جذبہ ہے جس کی آج اپنی اپنی قیادتوں کیلئے نفرت و عقیدت کے سنگین جذبات میں تقسیم ہوئی قوم کو سخت ضرورت ہے۔ آج حکومتی اتحادی جماعتوں کی سیاسی مخالف پی ٹی آئی ابتلاء کے دور سے گزر رہی ہے جسے منتخب ایوانوں میں اپنا پارٹی پلیٹ فارم بھی میسر نہیں آسکا۔ اسکے قائد اور دوسرے عہدیداران قید و بند کی سختیاں بھگت رہے ہیں اور احتجاج کیلئے نکلنے والے اس پارٹی کے کارکنوں کی گرفتاریوں کا سلسلہ بھی ہنوز جاری ہے۔ اس صورتحال میں سیاسی کشیدگی کی فضا مزید گھمبیر ہو سکتی ہے۔ توقع کی جانی چاہیے کہ میاں شہبازشریف اور انکی اتحادی حکومت افہام و تفہیم کے قومی جذبے کو اپنی مخالف پی ٹی آئی تک بھی پھیلائے گی تاکہ منافرت کی سیاست کو مزید پروان چڑھنے سے روکا جا سکے۔ اس وقت ملک میں سلطانی ِمہور کے نئے سفر کا آغاز ہو چکا ہے۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں قائد ایوان سے لے کر تمام آئینی اور انتظامی مناصب تک انتخاب کا عمل مکمل ہو چکا ہے‘ وفاقی اور صوبائی حکومتیں تشکیل پا چکی ہیں اور رواں ماہ 9 مارچ کو صدر مملکت کے انتخاب کا مرحلہ بھی تکمیل پا جائیگا جس کیلئے الیکشن کمیشن کی جانب سے پہلے ہی شیڈول جاری کیا جا چکا ہے اور اس منصب پر حکومتی اتحادی جماعتوں کی جانب سے آصف علی زرداری اور سنی اتحاد کونسل کی جانب سے سینئر سیاست دان محمود خان اچکزئی کے کاغذات نامزدگی بھی داخل کرائے جا چکے ہیں۔ توقع کی جانی چاہیے کہ صدر کے انتخاب کے بعد جمہوریت کی گاڑی کو ٹریک پر رکھنے کیلئے حکومتی اور اپوزیشن جماعتیں مثبت اور تعمیری کردار ادا کریں گی تاکہ سسٹم کی بساط الٹائے جانے کی دوبارہ کبھی نوبت نہ آئے اور عوام کو صحیح معنوں میں سلطانیِ جمہور کے ثمرات بھی حاصل ہو سکیں۔

ای پیپر-دی نیشن