نو منتخب حکومت اور اصلاحات
انتخابات سے قبل سیاسی ماہرین کی رائے تھی کہ 8 فروری کو ہونے والے انتخابات ملک میں وہ سیاسی استحکام نہیں لا سکیں گے جس کی اْمید کی جارہی ہے۔ اِس میں دو رائے نہیں ہے کہ انتخابات ضروری ہیں اوراِنتخابات کا عمل جمہوریت کے فروغ کیلئے ایک اہم سنگ ِمیل ہوتا ہے۔شفاف اور منصفانہ انتخابات کا عمل لوگوں کی حقیقی نمائندگی کو طے کرنے کا عمل ہے اور اگر اِس عمل میں بے ضابطگیوں کی چھاپ لگ جائے گی تو نہ صرف پوری مشق ہی بے وقعت ہوجاتی ہے بلکہ اِس سے سیاسی اور معاشی اِ ستحکام جیسے اہداف حاصل نہیں ہوسکتے۔
اب چونکہ یہ مشق ہو چکی ہے اور اسٹیک ہولڈرز کا اِس مشق پر عدم اطمینان کا اظہار بھی شروع ہو چکا ہے تو سیاسی ماہرین کا انتخابات سے قبل کا تجزیہ دْرست دکھائی دیتا ہے۔ میری نظر میں کچھ اہم اصلاحات کے نفاذ کے بغیر انتخابی مشق صرف ایک بے معنی مشق ہو گی اور سب ویسے ہی چلتا رہے گا جیسے برسوں سے چل رہا ہے۔
میری رائے میں تمام اسٹیک ہولڈرز کو چار اصلاحات پر غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے ایک مستند نظام وضع کرنے کیلئے ضرروی ہے کہ انتخابی اصلاحات کی جائیں۔ انتخابی اصلاحات ایسا مسئلہ ہے جس کے بارے میں تمام سیاسی قوتیں اور اسٹیک ہولڈرز یہ سمجھتے ہیں کہ یہ بہت اہم ہیں۔ انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی وجہ سے جمہوری نظام میں کسی مثبت تبدیلی کا تصور ممکن نہیں۔
چونکہ احتساب اور جوابدہی کاموثر نظام تشکیل نہ پا سکا اِس لئے ایک ہی طرح کے لوگ نظام کا حصہ بن کر واپس آتے رہے اور نظام ایسا ہوچکا ہے جس میں عام لوگوں یاورکنگ کلاس کی نمائندگی کم ہوتے ہوتے اب نہ ہونے کے برابر رہ گئی ہے۔
پاکستان کے اِنتخابی عمل پر نظر رکھنے والے ماہرین کا خیال ہے کہ ایوانوں میں آنے والی اشرافیہ عوام کی اکثریت کی نمائندہ نہیں ہے کیونکہ اگر لوگوں کا ٹرن ٰآئوٹ 50 فیصد نہیں ہے تو اِس کا مطلب ہے کہ ملک کی اکثریت اِس انتخابی مشق کا حصہ ہی نہیں بنی۔ ماہرین کے خیال میں متناسب نمائندگی بہتر حل ہے جس میں زیادہ سے زیادہ لوگ انتخابی عمل کا حصہ بنیں گے اور پارلیمنٹ بھی نمائندہ پارلیمنٹ تصور ہوگی۔ الیکشن کمیشن کے حوالے سے مختلف سیاسی زْعما کو تحفظات ہیں کہ الیکشن کمیشن میں اختیارات اور احتساب کے ضمن میں توازن ہونا چاہیے اور اِ س میں الیکشن کمیشن کی غیرجانبدارانہ حیثیت مسلمہ ہونی چاہیے جس پر ہر الیکشن میں سوال اْٹھائے جاتے ہیں۔
انتخابی اصلاحات کے نتیجے میں وجود میں ا?نے والی حکومت کو اور اسٹیک ہولڈرز کو انتخابی اصلاحات کے علاوہ تین اصلاحات پر جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ سب سے اہم اور شاید سب سے بنیادی اصلاحات نظام ِعدل سے متعلق ہیں۔ پاکستان کے زیادہ آئینی ، معاشرتی اور سماجی مسائل کا حل ایک مضبوط عدلیہ میں پنہاں ہے۔ عام آدمی کے روزمرہ کے مسائل کا ازالہ بھی اِسی صورت ممکن ہے کہ پاکستان کی عدلیہ مضبوط ہو۔ کسی بھی معاشرے میں ناانصافی اْس معاشرے میں بے چینی اور مایوسی کا سبب بنتی ہے۔ پاکستان کے نظام ِعدل کے بارے میں میں یہ اچھا تاثر نہیں ہے کہ یہاں کے نظام ِانصاف میں اہل زر اور اہل حیثیت لوگوں کے لیے ایک قانون ہے اور غریبوں اور ناداروں کے لیے دوسرا قانون ہے۔ کوشش کی جانی چاہیے کہ عدل کا نظام ایسا ہو جہاں امیر اور غریب کا فرق مٹ جائے اور تمام لوگوں کو بلا تفریق انصاف میسر ہو۔ پاکستان میں ایک تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں عدلیہ کی اصلاحات کے لیے لیے کبھی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی۔چونکہ سارا پاکستان نظام ِعدل کا اسٹیک ہولڈر ہے اِس لیے سب کو مل کر عدل کے ایسے نظام کے لیے کام کرنا چاہیے جو تمام طبقات کے لئے یکساں ہوں۔ ہمیں ایسا نظام چاہیے جو جدید خطوط پر استوار ہو، مؤثر ہو اور ضرورت پڑنے پر ہر ایک کو میسر ہو۔ اِس کے لئے نہ صرف بہت سے آئینی اور قانونی اقدامات کرنے کی ضرورت ہو گی بلکہ عدلیہ کی استعداد بڑھانے کی ضرورت بھی ہوگی۔اِس وقت سپریم کورٹ اور ماتحت عدالتوں میں زیرِالتوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کسی بھی کمرشل کیس کے حل کے لئے 1070 دن درکار ہیں جو پاکستان میں کاروبار اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اچھا شگون نہیں ہے۔ نظام عدل کا ترقی و خوشحالی سے گہرا تعلق ہوتاہے اور جس ملک میں لوگ دہائیوں تک انصاف کے حصول کے لیے مارے مارے پھرتے ہوں وہاں لوگوں کو سرمایہ کاری اور کاروبار کے لیے بھی مائل کرنا مشکل ہو گا۔
اصلاحات میں دوسری ترجیح تعلیم ہے۔ پاکستان کا تعلیمی نظام اول تو تمام طبقات کی ضروریات کا احاطہ نہیں کرتا اور دوم تعلیمی نظام کی وجہ سے معاشرے میں تقسیم ،انتہا پسندی اور تشدد جیسے رجحانات کو فروغ ملا۔پاکستان کا تعلیمی نظام کئی طرز اور اقسام کے نصابوں میں بٹا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اور یہ نظام علم کے عصری تقاضوں کو پورا کرنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتا۔ مستقبل میں بڑی پریشان کن صورت حال یہ ہو گی کہ آبادی کی شرح میں خوفناک اضافہ ہوگا۔
ہمارے پاس وسائل نہیں ہوں گے کہ ہم اپنے بچوں کو بنیادی تعلیم سے آراستہ کر سکیں۔ اِس وقت بھی سولہ سال تک کے بچوں کے لیے تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے لیکن لاکھوں بچے سکول سے باہر ہیں۔ اور ہر سال بچوں کی اسکول چھوڑنے کی شرح بھی پریشان کن ہے۔ کیونکہ تعلیم پاکستان کا مستقبل ہے اِس لیے تعلیمی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ میری رائے میں پاکستان کے تعلیمی نظام میں اصلاحات کے ذریعے اِس کو جدید عصری تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے۔ سولہ سال تک کے بچوں کی لازمی تعلیم کو یقینی بنایا جائے۔نظامِ تعلیم ایسا ہو جو معاشرے کو مذہبی ، مسلکی، معاشرتی، سماجی اور لسانی طور پر تقسیم نہ کرے۔ اگر پاکستان نے دْنیا کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے تو جدید علوم، انفارمیشن ٹیکنالوجی، سائنس اور بزنس کے جدید رْحجانات کو فوکس کرنا پڑیگا۔ اگر ہمیں دْنیا کے ساتھ چلنا ہے تو ہمیں بنیادی تعلیم سے لے کر اعلیٰ سطح کی تحقیق کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا ہو گا۔
صحت اصلاحات کے حوالے سے تیسری ترجیح ہے کیونکہ پاکستان اْن ممالک میں شامل ہے جو صحت کو بنیادی انسانی حقوق سمجھتے ہیں۔ پاکستان صحت کے حوالے سے بہت سے مسائل کا شکار ہے جن میں اسٹرکچر ، و سائل کی کمی اور استعداد کے فقدان جیسے مسائل شامل ہیں۔ بڑی وجہ یہ ہے پاکستان اِس وقت معاشی مشکلات سے بھی نبرد آزما ہے اِس لئے صحت کے حوالے سے اہداف کا حصول ایک بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کو مشکل حالات کا سامنا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو صحت کے حوالے سے جامع اصلاحات کرنا ہوں گی اور اِن اصلاحات کے نتیجے میں صحت کی سہولیات ضلع اور تحصیل کی سطح پر منتقل کی جائیں تاکہ سہولیات عام آدمی کی پہنچ میں ہوں۔ پاکستان اِس وقت بہت سے مسائل کا شکار ہے اور اگر نو منتخب حکومت اِن اصلاحات کے لئے منظم کوشش کا آغازکر ے تویہ ایک اِنقلابی قدم ہوگا۔
٭…٭…٭