بھٹورےفرنس رائے محفوظ سپریم کورٹ جلدسنائے گی چیف جسٹس
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر رائے محفوظ کرتے ہوئے جلد مختصر رائے سنانے کا عندیہ دیا ہے۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد عدالت رائے کو سنائے گی۔ کیس کی کارروائی سپریم کورٹ کے یوٹیوب چینل پر براہ راست نشر کی گئی۔صنم بھٹو، آصفہ بھٹو اور بختاور بھٹو کے وکیل رضا ربانی نے کہا کہ جب بھٹو کے خلاف کیس چلایا گیا، لاہور ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ آئین کے تحت کام نہیں کر رہے تھے، اس وقت ملک میں مارشل لاء نافذ اور بنیادی انسانی حقوق معطل تھے، مارشل لاء نافذ کر دیا گیا، 24 جولائی کو ایف ایس ایف کے انسپکٹرز کو گرفتار کیا گیا، 25 اور 26 جولائی کو ان کے اقبال جرم کے بیانات آ گئے، مارشل لاء دور میں زیر افراد ان افراد کے بیانات لیے گئے، جسٹس اسلم ریاض بیک وقت سپریم کورٹ کے جج اور پنجاب کے قائم مقام گورنر تھے۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ مارشل لاء آرڈر کے تحت تو کچھ بھی ہو سکتا تھا، مارشل لاء دور میں تو گورنر ٹرائل بھی چلا سکتے تھے، جس پر وکیل رضا ربانی نے کہا کہ وہ تو بادشاہ تھے، مارشل لاء میں جو مرضی کریں۔ بھٹو کیس میں فئیر ٹرائل کے پراسیس پر عمل نہیں کیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آج بھٹو ریفرنس پر کارروائی مکمل کریں گے۔ احمد خان قصوری نے کہا کہ بھٹو کیس میں پرائیویٹ کمپلینٹ 1977 میں دائر کی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ قتل 1974 کا تھا آپ نے اتنا وقت کیوں لیا؟۔ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ پہلے کیس بند ہو گیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیئے کہ کیس بھی کافی پہلے بند ہوا آپ تبھی کیوں نہ گئے کہ ناانصافی ہوگئی، آپ نے 3 سال کیوں لیے تھے اس کا جواب کیا ہوگا؟۔ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو وزیراعظم تھے صورتحال ہی ایسی تھی۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ آپ کے اور کتنے بہن بھائی موجود تھے 1974 میں؟۔ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ ہم 6 بھائی تھے کوئی بہن نہیں ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی ایک اچھی اثر و رسوخ، تعلقات اور وسائل والا خاندان تھا، آپ جیسا بااثر خاندان کیسے کمپلینٹ فائل کرنے میں اثر لیتا رہا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے سوال اٹھایا کہ آپ نے انکوائری بند ہونے کا آرڈر بھی چیلنج نہیں کیا تھا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے استفسار کیا کہ اٹارنی جنرل سے مسعود محمود کے بارے میں تفصیلات مانگی تھی؟ کچھ پتہ چلا مسعود محمود کہاں ہے؟، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے کہا کہ مسعود محمود کے بچوں نے بیرون جانے کی اجازت کے لئے خط لکھا تھا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل عامر رحمان نے مسعود محمود کے بچوں کا خط عدالت میں پیش کردیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ خط تو 1977میں اس وقت کے وزیراعظم کو لکھا گیا ہے، جس پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ مزید ریکارڈ کے لیے 3 وزارتیں کام کررہی ہے، ایف آئی اے اور نادرا سے مسعود محمود کے بارے میں ریکارڈ مانگا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب بھی تفصیلات ملے عدالت کو آگاہ کیا جائے، جس شخص کو آپ والد کا قاتل سمجھتے تھے اس سے ملنا تو نہیں چاہتے ہوں گے؟ آپ دوبارہ پارٹی میں آئے اور ٹکٹ کے لیے اپلائی کیا؟۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں جانتا تھا مجھے مارک کیا گیا ہوا ہے، مجھ سے وہ بوتل لانے کا کہا جاتا جس میں والد کا خون محفوظ کیا تھا، میں ایک اچھا پبلک سپیکر تھا اس لئے مجھے مہم میں شمولیت کا کہا گیا، میں جانتا تھا بھٹو مجھے قتل کروا دے گا۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کی بات میں ایک اور تضاد ہے، جب آپ کو پتہ تھا بھٹو اتنا طاقتور ہے تو پھر آپ ان کے خلاف کیسے بول سکتے تھے؟۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ میں پیپلز پارٹی میں ایک انتہائی طاقتور شخص تھا، صرف 5 لوگوں کو نشان پیپلز پارٹی ملا میں ان میں ایک تھا، ذوالفقار علی بھٹو میرے سوا ایک انچ ادھر ادھر نہیں ہوتے تھے۔ جس پرچیف جسٹس نے پوچھا کہ پھر یہ محبت نفرت میں کیسے بدل گئی؟۔ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ اس لیے بتا رہا ہوں کہ ایسا نہیں مجھے کچھ ملا نہیں تھا تو خلاف ہوگیا، ہمارے اختلاف ذوالفقار علی بھٹو کے چار بیانات پر شروع ہوئے۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ کوئی پندرہ سولہ کے قریب حملے ہوئے تھے مجھ پر، پہلے دس سے زیادہ ایف آئی آرز تھیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ان ایف آئی آرز میں تو آپ نے بھٹو کو نامزد نہیں کیا، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ پہلی ایف آئی آرز میں بھٹو کو میں نے نامزد نہیں کیا تھا، جب میرے والد کا قتل ہو گیا تو میں نے کہا بس بہت ہو گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ قصوری صاحب آپ قتل کیس پر فوکس کریں، جو صدر نے ریفرنس میں سوال پوچھا اس پر رہیں۔ احمد رضا قصوری نے کہا کہ مغربی پاکستان سے ضمیر کی آواز پر ڈھاکہ جانے والا میں واحد شخص تھا، وہ سیشن ہوجاتا آج ہنستا بستا پاکستان ہوتا۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ ججوں کے تعصب پر جو باقی لوگوں نے بات کی اس پر آپ کیا کہیں گے؟۔ جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ تعصب کا الزام صرف مولوی مشتاق پر تھا، مولوی مشتاق نے تو فیصلہ تحریر نہیں کیا تھا، فیصلہ تو آفتاب حسین نے لکھا وہ متعصب نہیں تھے۔ جسٹس یحیی آفریدی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اپیل کے فیصلے سے متعلق ایک جج کا انٹرویو موجود ہے، جس پر احمد رضا قصوری نے کہا کہ وہ فیصلہ چیف جسٹس انوار الحق نے لکھا، فرض کریں وہ ضیاءالحق کی ہدایات پر ایسا کر رہے تھے پھر تو وہ ضیا کو بہت عزیز ہوتے، تاریخ مگر یہ بتاتی ہے جب پی سی او آیا انوار الحق نے حلف لینے سے انکار کیا، جو شخص پی سی او کا حلف نہیں لے رہا وہ کسی معصوم کی جان لے گا؟۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مختصر دلائل میں کہا کہ بھٹو کیس میں تفتیش مجسٹریٹ آرڈر سے بند ہوگئی تھی، کوئی بھی نیا جوڈیشل آرڈر لئے بغیر دوبارہ تفتیش کی گئی، پورا ٹرائل ایسی تفتیش پر چلا جو قانونی نہیں تھی، بظاہر لگتا ہے اس وقت سرکار کی مداخلت موجود تھی۔ جسٹس جمال نے کہا کہ اب ایسی مداخلت کرنے کیلئے حکومت کیا اقدامات کر رہی ہے؟۔ اس پر انہوں نے کہا کہ آف کورس ہم تو عدلیہ کی آزادی کے داعی رہے ہیں۔ جسٹس جمال نے پوچھا کہ آپ اقدامات کیا کر رہے ہیں؟۔ تو انہوں نے کہا کہ اب نئی حکومت آ رہی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ حکومتیں آتی جاتی رہتی ہیں ہم اپنا کام کریں دوسروں کو اپنا کام کرنے دیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے کہا کہ ایک بنچ ممبر ریٹائر ہو رہے ہیں ہم اپنی مختصر رائے اس سے پہلے سنائیں گے۔ آج تو نہیں مگر سپریم کورٹ جلد اپنی رائے سنائے گی، ساتھی ججز سے مشاورت کے بعد عدالت رائے کو سنائے گی۔