دل کو رؤں یا پیٹوں جگر کو میں؟
پچھلے کالم کا جہاں پر اختتام ہوا تھا بات پھر وہیں سے شروع کرتے ہیں کہ کچھ خلیجی ممالک کی ایئر لائنز کا اس وقت دنیا میں انکی سروسز اور کارکردگی کی بنیاد پر جس پیمانے پر اعلیٰ درجہ کی ایئر لائنز میں شمار ہو رہا ہے کبھی ساٹھ ستر کی دہائی میں یہی مقام ہماری قومی ائیر لائن پی آئی اے کو بھی حاصل تھا۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ لاہور میں کینٹ کے علاقے عابد مجید روڈ کے اختتام پر پرانا ائیرپورٹ ہوتا تھا جہاں سے اندرون ملک اور بیرون ملک پروازیں اْڑان بھرتی تھیں کیونکہ میرے سے بڑے چاروں بھائی لندن میں مقیم تھے لہٰذا جب بھی اْنھیں ائیرپورٹ لینے یا چھوڑنے جانا ہوتا تو ایک عجیب سے لطف کا احساس ہوتا۔ ائیرپورٹ کا جب بھی نام لیا جاتا تو ذہن میں یہی بات آتی کہ ائیرپورٹ پی آئی اے کا دوسرا نام اور اسی کی ملکیت ہے۔ ائیرپورٹ کی بلڈنگ میں داخل ہوتے تو ایک خوشگوار ماحول آپکو اپنے سحر میں جکڑ لیتا۔ مین بلڈنگ میں داخل ہوتے تو سامنے انفارمیشن کاونٹر پر جب خوبرو میزبانوں پر آپکی نظر پڑتی تو انکے حسین چہروں کی کشش نہ چاہتے ہوئے بھی آپکو اپنی طرف کھینچ لیتی اور آپ فلائٹس کے ٹائمنگ پوچھنے کے بہانے اس خیال کے ساتھ کاؤنٹر کی طرف رْخ کرتے کہ اگر ان خوبصورت چہروں سے بات نہ ہوئی تو شائد آپکی ائیرپورٹ یاترا ادھوری رہ جائے گی لیکن اس دوران آپ یہ احتیاط ضرور ملحوظ خاطر رکھتے کہ دوران گفتگو کسی قسم کے چھچورے پن کا شائبہ تک بھی نہ گزرے اور آپکی پرسنیلٹی کا بھرم برقرار رہے۔
ماضی کے بند کواڑ کھولتا ہوں تو سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ میرے اس ملک میں اْس وقت بھی کیا یہی لوگ نہیں تھے جو آج ہیں ، اْس وقت کے لوگوں میں کیا رکھ رکھاؤ، کیا طور طریقے اور وضعداری ہوتی تھی اور جب آج کے حالات پر نظر ڈالتا ہوں تو اپنے آپ سے سوال کرتا ہوں یہ قحط الرجال کیوں حالانکہ فرق تو صرف جنریشن گیپ ہی کا ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ گو اْس وقت تعلیم اتنی عام نہیں تھی لیکن لوگوں کو بات کرنے کا شعور تھا۔ ہر محکمہ اپنی کارکردگی پر فوکس کرتا تھا کیونکہ اْنھیں پتا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طور کسی نہ کسی کے آگے جوابدہ ہیں۔ یہی سوچ دوسرے اداروں کی طرح ہماری ایئرلائن پی آئی اے کو بھی اْن بلندیوں پر لے گئی تھی جہاں دنیا کے لوگ کہتے تھے کہ “Great people fly with PIA” اور یہی ایک فقرہ پوری دنیا میں پی آئی اے کی پہچان بن گیا تھا۔ پھر کیا ہوا اس ادارے میں پرکشش مراعات کی وجہ سے میرٹ سے ہٹ کر بھرتیاں ہونا شروع ہو گئیں جسکی وجہ سے سروسز کا معیار گرنا شروع ہو گیا۔ میرٹ کے قتل کے ساتھ ساتھ سیاسی وفاداریوں کے بل بوتے پر ملازمتوں سے نوازنے کا سلسلہ شروع ہوا تو اس نے احتسابی عمل کے بخیئے ادھیڑ کر رکھ دئیے۔ کرپشن اس حد تک سرائیت کر گئی کہ بورڈ آف گورنرز جہازوں کی خریداری میں اگر اپنے اپنے کمیشن پر بضد تھے تو انجینرنگ کا عملہ پرزوں کی چوری اور ہیرہ پھیری کو اپنے منشور کا درجہ دے چکا تھا۔ گراونڈ سٹاف ٹکٹوں کی بکنگ میں اپنے ہاتھ رنگ رہا تھا تو کیبن سٹاف وہ تمام کام کر رہا تھا جو سمگلروں کی پہچان ہوتے ہیں۔ ایسے میں جہاں جانجی وی چور تے مانجی وی چور، چوروں نوں ویان چلے چوراں دے گھر چور والا سین ہو وہاں وہ دن تو ضرور دیکھنا تھا جو ہم آج دیکھ رہے ہیں لیکن ہمارے ظرف کی داد دیں کہ کیا مجال ہے آج بھی ہم اس طرف کوئی توجہ دیں اور سدھار کا کوئی راستہ دیکھیں ابھی کل ہی کی بات کہ نئے منتخب ہونے والے وزیراعظم بتا رہے تھے کہ پی آئی اے کا خسارہ اتنے سو ارب تک جا پہنچا ہے لیکن داد دینی پڑتی ہے انکے وڑن کو کہ اس خسارے کو کم کرنے کی بابت انھوں نے ایک لفظ بھی کہا ہو۔
کالم کے شروع میں اس خاکسار نے پرانے ائیرپورٹ کا ذکر کرتے ایک مسحور کْن ماحول کا تذکرہ کیا تھا حالانکہ اس وقت زمینی حقائق کو دیکھیں تو نہ اس وقت ائیرپورٹس اتنی بڑی تھیں اور نہ اتنی جدید سہولتیں میسر تھیں جبکہ آج ہم نے ائیرپورٹس کو توسیع بھی دی ہے اور کچھ جدید سہولتوں کا انتظام بھی کیا ہے لیکن یقین جانیں آجکل پاکستان کے کسی بھی ائیرپورٹ پر داخل ہوں تو آپکو ایسا لگتا ہے کہ آپ کسی ائیرپورٹ پر نہیں کسی ملٹری کیمپ میں داخل ہو گئے ہیں۔ کسی زمانے میں ائیرپورٹ سیکورٹی فورس والوں کی یونیفارم سکائی بلیو شرٹ اور نیوی بلیو پینٹ پر مشتمل ہوتی تھی جو آجکل آرمی کی یونیفارم سے مشابہ یونیفارم میں تبدیل کر دی گئی ہے۔ ائیرپورٹ کی حدود سے شروع ہو کر جہاز کی جیٹی تک جہاں بھی آپ جائینگے آپکو ہر قدم پر انکی فوج ظفر موج سے واسطہ پڑیگا۔ بلڈنگ میں داخلے کے بعد سامان کی سکرینگ کے آگے آپکو جن سے واسطہ پڑتا ہے وہ بھی مکمل آرمی کی یونیفارم میں ملوث انھی کا ایک ذیلی ادارہ اے این ایف ہے۔ قانونی طور پر یہ ذمہ داری محکمہ کسٹم کی ہے کہ وہ آنے جانے والے مسافروں پر نظر رکھے کہ کسی غیر قانونی سامان کی ترسیل یا نقل و حمل نہیں ہو رہی۔ کسی زمانے میں یہ فرائض سفید وردیوں میں ملبوس کسٹم افسران ادا کرتے تھے جنکی سفید وردیوں کی وجہ سے اپنی گریس ہوتی تھی لیکن اب یہ فرائض اے این ایف والوں نے سنبھال لیئے ہیں جبکہ رائج قانون آج بھی یہ کہتا ہے کہ کسٹم ایکٹ سپیشل ایکٹ ہے جو دوسرے تمام ایکٹوں کو سپر سیڈ کرتا ہے۔ دوسرے تمام ادارے کسٹم کے ادارے کی مدد کر سکتے ہیں لیکن جن جگہوں پر کسٹم ایکٹ میں ڈکلیر کر دیا گیا ہے وہاں سامان کی جانچ پڑتال کی بنیادی ذمداری محکمہ کسٹم کی ہی بنتی ہے۔
شومئی قسمت ان دنوں جو کوئی اکا دکا آپکو کسٹم کا کوئی اہلکار نظر آئیگا اسکی یونیفارم بھی آپکو آرمی کے رنگروٹ سے ملتی جلتی نظر آئیگی لہٰذا بریفنگ ایریا تک جیسا اوپر عرض کیا آپکو ایسا لگے گا کہ آپ ائیرپورٹ نہیں کسی فوجی کیمپ میں داخل ہو چکے۔ اس سے آگے کیا کہہ سکتا ہوں دل کو رؤں یا پیٹوں جگر کو میں
میر تم کو دونوں سے آشنائی ہے